Boycott French Products

In Pakistan, from last few days, everyone is talking about boycott France. We are as a nation, very impulsive, always follow heart, never use our head. Boycott imported goods only effect local traders, because on import stage, we already paid to french companies. They damn care about our boycott. If we really interested to dent French economy then ban all type of imports from France. But in Pakistan, no one bother to think like that neither govt nor Mullas. Sadly most people who chanting about boycott are mostly  keyboard activists. I’m afraid, people will forget this matter sooner as usual, right after some M. A Jinnah road protests, banners, Fb posts, status, whtsapp messages… And life goes on.
اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگیں گے

کیا ایسی تھی ریاست مدینہ؟

مدد یوں کرو کہ ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے کو خبر نہ ہو”۔

یہ وہ بات ہے جو ہر بچہ اسلامیات یا اخلاقیات کی درسی کتاب میں پڑھتا ہے۔ مگر جب میں نے وہ تصویر دیکھی جس میں جدید ریاستِ مدینہ کے بانی اعلی حضرت ایک برقعہ پوش خاتون کو امدادی سامان کو ڈبہ تھما رہے ہیں اور ان کے برابر میں برطانیہ میں طویل زندگی بسر کر کے خدمتِ وطن کے لیے واپس لوٹ کر پنجاب کی گورنری سنبھالنے والے چوہدری محمد سرور اور وزیرِ اعلی پنجاب جناب عثمان بزدار عرف وسیم اکرم پلس اور مشیرِ اطلاعات محترمہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان ایم بی بی ایس اور ان کے برابر میں ایک بیوروکریٹ کھڑے ہیں۔ ان میں سے کسی نے نہ ماسک پہنا ہے نہ ضروری فاصلہ برقرار رکھا ہے۔ بس وزیرِ اعظم کے پیچھے فاصلے سے کھڑے دو اسٹافرز نے ماسک لگایا ہوا ہے۔

ماسک پہننے کی تلقین کرنے والوں کے ماسک نہ پہننے کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ کیونکہ کسی کی اس طرح مدد کرتے ہوئے سخی بادشاہ اور اس کے حواریوں کے چہرے پر جو فخریہ تاثرات ابھرتے ہیں کہ جن سے صاف صاف ٹپک رہا ہوتا ہے کہ لے سائل تو بھی کیا یاد کرے گا، کس حاتم طائی سے پالا پڑا ہے۔ یہ تاثرات امداد سے بھی زیادہ اہم ہیں اور ماسک ان تاثرات کا قاتل ہے۔

یہ تصویر دیکھنے کے بعد میں امریکی صدر ٹرمپ، برطانوی وزیرِ اعطم بورس جانسن، جرمن چانسلر اینجلا مرکل، اطالوی وزیرِ اعظم گوئسپ کونٹے، ہسپانوی وزیرِ اعظم پیڈرو سانچیز، ایرانی صدر حسن روحانی، روسی صدر پوتن، چینی صدر شی جن پنگ، بھارتی وزیرِ اعظم مودی، انڈونیشا کے صدر جوکو ودودو، جنوبی کوریا کے صدر مون ژائے ان، جاپانی وزیرِ اعظم شنزو آبے، سری لنکا کے وزیرِ اعظم مہندرا راجا پکسے، بنگلہ دیشی وزیرِ اعظم حسینہ واجد، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان، امارات کے صدر خلیفہ بن زید النہیان، برازیل کے صدر گائر بولسنارو، جنوبی افریقہ کے صدر سرل راما پھوسا سمیت درجنوں ممالک کے حکمرانوں کی پچھلے دو تین ہفتے کی تصاویر چھان چکا ہوں جہاں کورونا نے پوری ریاست و سماج کو تلپٹ کر دیا ہے۔

ان تمام معزز حکمرانوں نے اپنی اپنی رعایا کے لیے اربوں ڈالر کی ہنگامی امداد کا بھی اعلان کیا ہے۔ مگر میری بدقسمتی کہ ان میں سے ایک حکمران کی بھی ایسی تصویر ہاتھ نہیں آ سکی جس میں وہ کسی غریب کو امداد کا ڈبہ تھماتے ہوئے سینہ تانے تصویر کھچوا رہے ہوں۔

چانچہ آج کے بعد میں ان تمام لوگوں سے معافی مانگتا ہوں جن کی تصاویر پر میں نے کوئی منفی تبصرہ کیا یا ان کے بارے میں دل میلا کیا۔ بھلے سندھ کے وہ رکنِ اسمبلی ہوں جو اپنے غریب ووٹروں کو کورونا سے بچانے کے لیے بیس روپے کے صابن کی بٹی تھماتے ہوئے ایسے گروپ فوٹو کھنچوا رہے ہیں گویا فیفا کی ٹرافی تھما رہے ہوں۔ یا پھر وہ کروڑ پتی سیٹھ صاحب جنھوں نے راشن کے تھیلوں پر اپنی تصویر ایسی نمایاں چھاپی ہے گویا پہلے وقتوں کے ہرن چھاپ تمباکو کے پیکٹ پر الحاج محمد یاسین مرحوم کا چہرہ زیتون کی دو شاخوں کے درمیان گڑا ہوا کرتا تھا۔

میں انتہائی معذرت خواہ ہوں ان تمام صاحبِ دل سخی مسلمانوں سے جو کسی غریب عورت کو ہزار کا نوٹ عنائیت کر رہے ہیں اور اس نوٹ کو درجنوں ہاتھ یوں تھامے ہوئے ہیں گویا صدقے کے بکرے پر یا سئید دھڑم دھکیل شاہ کی سالگرہ کے کیک کی چھری پر ہاتھ رکھے ہوں۔ درجنوں فخریہ آنکھوں کے بیچ پھنسی  وہ مسکین عورت کبھی خود کو دیکھ رہی ہے، کبھی ان حاتم طائی ہاتھوں کو اور کبھی ان ہاتھوں کے ہجوم میں پھنسے ہزار کے نوٹ کو۔

میں ان تمام معزز تاجروں کو پرلے درجے کا چھچورا سمجھنے پر انتہائی شرمندہ ہوں جنھوں نے ایک قصبے کے مرکزی بازار میں کورونا کی واردات سے بہت پہلے بڑا سا بینر لٹکایا تھا۔ اس پر سنہری رنگ میں لکھا تھا  ”  ہم تاجران ِ شاہی بازار ٹم ٹم پور اپنے ہر دلعزیز ساتھی حاجی محمد نواز صاحب کو نئی کرولا ایکس ایل آئی دو ہزار انیس خریدنے پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ بینر کے دائیں جانب نئی کرولا ایکس ایل آئی کی اصلی رنگین تصویر بھی چھاپی گئی تھی۔

مجھے یاد پڑتا ہے جب موجودہ حکومت نئی نئی برسرِاقتدار آئی تو اس نے اخباری اشتہارات کے واجب الادا پیسوں کی ادائیگی اس شرط سے نتھی کر دی تھی کہ جن سرکاری اشتہارات پر کسی وزیر یا وزیرِ اعلی کی تصویر تھی ایسے اشتہارات کی ادائیگی موجودہ حکومت اپنے خزانے سے کرنے کے بجائے سابق حکمرانوں اور عمل داروں کو بل بجھوائے گی جنھوں نے سرکاری منصوبوں کے اشتہارات باپ دادا کا مال سمجھتے ہوئے ذاتی تشہیر کے لیے استعمال کیے۔

اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ اب جو غریبوں میں کورونا مدد کے نام پر حکمرانوں کی تصاویر و حوالہ جات  سے لت پت تھیلے یا ڈبے فوٹو سیشن کرتے ہوئے بانٹے جا رہے ہیں کیا یہ سرکاری بجٹ سے بٹنے والی امداد ہے یا پھر حکمران اپنی جیبِ خاص سے یہ امداد لٹا رہے ہیں؟ اگر تو یہ جیبِ خاص کی سخاوت ہے پھر تو آپ تصویر چھوڑ اپنا مجسمہ بھی متاثرین کو تھیلے کے ساتھ نتھی کر کے دیں۔ لیکن اگر یہ سرکاری پیسہ المعروف ٹیکس دھندگان کا پیسہ المعروف ہمارا پیسہ ہے تو پھر یہی پیسہ ہمیں امداد کی شکل میں لوٹاتے ہوئے اپنی صورت تو مت دکھائیں۔

ہاں اگر مستحقین کو صرف یہ یاد دلانا مقصود ہے کہ یہ امداد کون دے رہا ہے تو آپ زیادہ سے زیادہ وفاقی یا صوبائی حکومتوں کا سبز سرکاری نشان تھیلوں اور ڈبوں پر چپکا کر یہ کارِ خیر انجام دے سکتے ہیں۔ تاکہ سب کو یقین ہو جائے کہ یہ امداد منگولیا نہیں بلکہ حکومتِ پاکستان دے رہی ہے۔

چلیے چھوڑئیے اس چھیچھا لیدر کو۔ اصلی ریاستِ مدینہ کے دو قصے سن لیجیے۔

حضرت فاطمہ بنتِ محمد جن کے ہاتھوں میں چکی پیس پیس کر گٹے پڑ گئے ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہمراہ اپنے والد سرورِ کائنات خاتم المرسلین کی خدمت میں حاضر ہوتی ہیں۔ یا رسول اللہ ممکن ہو تو کام کاج میں آسانی کی خاطر ایک غلام مرحمت فرما دیجے۔ وہ باپ جو ہمیشہ اپنی بیٹی کا اٹھ کر استقبال کرتا ہے۔ حضرتِ فاطمہ سے مخاطب ہوتے ہیں ” فاطمہ مجھے تمہاری ضرورت سے پہلے بدر کے یتیموں اور اصحابِ صفہ کی حاجت روائی کا خیال آتا ہے”۔۔۔

مسجدِ نبوی کے احاطے میں ایک چبوترے پر وہ صحابہ بیٹھتے تھے جن کا کوئی گھر بار نہ تھا۔ وہیں تعلیم حاصل کرتے، کھانا تناول کرتے اور آرام فرماتے۔ مجھے کسی بھی تاریخی کتاب کا کوئی ایک حوالہ درکار ہے جس میں ان صاحبانِ حیثیت کے نام درج ہوں جو اصحابِ صفہ کو کھانا، کپڑے اور گذارے کی دیگر اشیا فراہم کر رہے تھے یا ان کی مسلسل دیکھ بھال کر رہے تھے۔

تحریر: وسعت اللہ خان

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس

کرو یا مرو

ویسے تو انسان جاتی ہی بہت عجیب ہے مگر انسانوں میں بھی اگر قسم بندی کی جائے تو ہم جنوبی ایشیائی سب سے الگ ہیں۔

سو روپے کے ادھار پر قتل کر دیں گے، خاندانی و دینی غیرت کے مارے سر اتار دیں گے، ہمیشہ اپنے کے بجائے دوسرے کو مشورہ دیں گے، بات بے بات ریاستی نااہلی کو اپنے انفرادی و اجتماعی افعال کا ذمہ دار ٹھہرائیں گے۔

لیکن جب آزمائش کا وقت آئے گا تو عقل کے ایٹم بم کو کام میں لانے کے بجائے جذبات کے بھالے، تاویل کی تلوار، کج بحثی کے پستول، اندھے عقیدے کے نیزے، تعصب کی منجنیق اور افواہ کی بندوق سے ہر آفت اور مرض کا مقابلہ کرنے کو افضل سمجھیں گے۔

مثلاً باقی دنیا بشمول عالمِ اسلام پولیو کا مقابلہ ویکسین اور آگہی سے کر رہی ہے اور سو فیصد کامیاب ہے۔ مگر ہم پولیو کو جہالت کی توپ سے اڑانے پر کمربستہ ہیں۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔

جسے عید کی نماز کے سوا باجماعت نماز کا کوئی تجربہ نہیں، وہ حرم شریف میں نماز نہ ہونے پر سعودیوں سے بھی زیادہ رنجیدہ ہے۔

جس نے ہمیشہ ذخیرہ اندوزی کو حلال جانا، وہ اللہ تعالی سے ڈرنے کی تلقین کر رہا ہے۔ جس نے جہاد پر اپنا کوئی بچہ نہیں بھیجا وہ بتا رہا ہے کہ وبا عام میں مرنا شہادت ہے۔

جس کی ہٹی سے کوئی ہڑ کا مربہ دو نمبری کے شہبے میں خریدنا پسند نہ کرے اس نے کورونا کا دیسی علاج سوشل میڈیا پر بیچنا شروع کر دیا ہے۔ جو خود کو ہارٹ سپیشلسٹ کہہ رہا ہے وہ وائرالوجی میں گھس کے مشورے دے رہا ہے کہ ہر آدھے گھنٹے بعد ہیئر ڈرائیر سے ناک کے بال گرم کریں تاکہ وائرس اندر نہ گھسے۔

وزیرِ اعظم کا کام ہے کہ وہ اس جنگ میں قوم کی قیادت کریں مگر انھیں بھی امید ہے کہ کورونا گرم موسم شروع ہوتے ہی کچھار میں گھس جائے گا۔

گورنر پنجاب نہ صرف خود قائل ہیں بلکہ دوسروں کو بھی قائل کر رہے ہیں کہ پانی پیتے رہیں تاکہ وائرس حلق سے پھسل کر معدے میں پہنچ جائے جہاں تیزابی عناصر اس کا کام تمام کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔

سرحد پار بھی ایسے ہی تماشے ہو رہے ہیں۔ گاؤ موتر سے کورونا کا اجتماعی علاج کرنے والے خود بیمار پڑ گئے ہیں مگر اس کے فضائل بیان کرنے سے باز نہیں آ رہے۔ ایک ارب پتی سادھو نے آیورویدک جڑی بوٹیوں سے علاج تجویز کیا ہے کیونکہ اس سادھو کی اپنی آیورویدک دوا ساز کمپنی ہے۔

مطلب یہ ہے کہ صابن سے ہاتھ نہیں دھونا، سینیٹائزر اور ماسک کا استعمال نہیں کرنا، اجتماعات یا بھیڑ میں جانے سے نہیں ہٹنا اور گھر میں آرام سے نہیں بیٹھنا۔ ان کے علاوہ تمام کام کرنے ہیں۔

خود کو بھی دھوکے میں رکھنا ہے اور لاکھوں لوگوں کو بھی ورغلاتے رہنا ہے۔ اور جب یہی لاکھوں لوگ خدانخواستہ مکھیوں کی طرح مرنے لگیں تو یہی دھوکے باز کہیں گے کہ انسان بے بس ہے، جو بھگوان یا اللہ کو منظور۔

مگر قصور ان سب کا بھی نہیں۔ ہماری اپنی نفسیات کون سی مثالی ہے۔ یہ تو خیر کورونا ہے۔

میں نے تو بچشمِ خود 2010 کے سیلابِ عظیم میں ملاحظہ کیا ہے کہ انتظامیہ گاؤں والوں کے ہاتھ جوڑتی رہی کہ گھروں کو خالی کر کے کشتیوں میں بیٹھ جاؤ تاکہ تمھیں کیمپوں تک پہنچا سکیں۔ اگلے 24 گھنٹوں میں پانی تمھارے گاؤں کو ڈبو دے گا۔ مگر اکثریت نے گھر چھوڑنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہمارے پیچھے گھروں کی حفاظت کون کرے گا۔

اور جب 24 گھنٹوں بعد پانی سات، آٹھ فٹ تک آگیا تو گاؤں چھتوں پر چڑھ کے حکومت کو کوس رہا تھا کہ اس نے ہمیں اکیلا چھوڑ دیا۔

یہ محاورہ بھی صرف برصغیر میں ہی بولا جاتا ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ کمیٹیاں بٹھانے اور بحث کرنے کا وقت گزر گیا۔ آپ جتنے لوگوں سے مشورے لیں گے اتنے ہی کنفیوژ ہوتے چلے جائیں گے۔ لہذا ’اب یا کبھی نہیں‘ کا مرحلہ آن پہنچا ہے۔

یہ ہمارا گیلی پولی ہے۔ جب گیلی پولی پر مغربی افواج نے چاروں طرف سے ہلا بول دیا تو کمال اتاترک نے اپنے سپاہیوں سے کہا ’میں تمھیں لڑنے کا نہیں، مرنے کا حکم دیتا ہوں۔‘ اور پھر گیلی پولی جیت لیا گیا۔

اس وقت ایک ہی ماڈل کام کا ہے اور وہ ہے چینی ماڈل: کرو یا مرو۔

تحریر: وسعت اللہ خان

بشکریہ بی بی سی اردو

غریب کرونا ، امیر کرونا

اپنے محلے کے جنرل سٹور سے گھر کا سودا خریدتے ہوئے ایک صاحب کو دیکھا جو منرل واٹر کی پیٹیاں ذخیرہ کر رہے تھے لیکن مصر تھے کہ پاکستانی نیسلے نہیں چاہیے، وہ جو دبئی والا آتا ہے وہ چاہیے۔

جب جنرل سٹور والے نے بتایا کہ وہ دستیاب نہیں ہے تو وہ بھناتے ہوئے گاڑی کی چابی گھماتے ہوئے کسی بہتر سٹور کی جانب چل دیے۔

میرے محلے کے سٹور والی گلی میں ہی کراچی کا مشہور عوامی ہوٹل کیفے کلفٹن ہے۔ یہ اتنا عوامی ہے کہ عید کے دن بھی بند نہیں ہوتا۔ کراچی کی انتہائی کم ایسی جگہیں ہیں جہاں مزدور اور بابو ایک ساتھ بیٹھ کر چائے پیتے ہیں۔

یہاں پر صبح مفت ناشتے کا بھی انتظام ہوتا ہے۔ کئی سالوں سے دیکھ رہا ہوں کہ ایک پراٹھے اور چائے کے کپ کے لیے لگی لائن لمبی ہوتی جا رہی ہے۔ لوگ اپنے چھ بچوں کو بھی لاتے ہیں۔ ناشتے کا انتظار کرتے لوگوں کے حلیے سے پتا چلتا ہے کہ وہ محنت کش ہیں، بھکاری نہیں۔

ان میں وردیاں پہنے پرائیویٹ سکیورٹی گارڈز ہوتے ہیں، کبھی رکشہ چلانے والے اور ایک آدھ دفعہ تو میں نے پولیس والے کو بھی ایک ہاتھ میں بندوق اور دوسرے ہاتھ سے چائے پراٹھا پکڑتے دیکھا ہے جو کیفے کلفٹن کے ملازم کسی مخیر اور درد مند شہری کی ایما پر بانٹ رہے ہوتے ہیں۔

سندھ حکومت نے فیصلہ کیا اور اچھا فیصلہ کیا کہ سوائے سودا سلف کی دکانوں کے سب دھندے بند کیے جائیں تو پہلی دفعہ کیفے کلفٹن پر شٹر پڑے دیکھے اور ساتھ ہی یہ احساس ہوا کہ شہر میں ایک امیر کورونا ہے جو دبئی کے منرل واٹر کی تلاش میں ہے اور شہر میں ایک غریب کورونا ہے جو صبح ملنے والے مفت چائے پراٹھے سے محروم ہوگیا ہے۔

کراچی والے اپنے آپ کو بہت ہمت والے (resilient) سمجھتے ہیں۔ میں کہتا رہا ہوں کہ ہم ڈھیٹ لوگ ہیں۔ الطاف حسین کی سقے شاہی ہو، رینجرز کے پے در پے آپریشن ہوں، ملک کے دوسری آفت زدہ علاقوں سے آنے والے پناہ گزینوں کا سیلاب ہو یا تابڑ توڑ ہونے والے دہشت گرد حملے، ہم دو دن بعد ہی کپڑے جھاڑ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور نکڑ والے پان کے کھوکھے پر کھڑے ہو کر پان لگواتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ ’اور سناؤ، کیا حال ہے؟‘ صاحبِ حیثیت تو گھروں میں بند ہو کر اپنا منرل واٹر پیتے رہیں گے، لیکن مزدور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر رزق کی تلاش میں نکلنے پر مجبور ہوگا

ہم اس کو ڈھٹائی کہہ لیں، بہادری کہہ لیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر شہر میں سکت ہی نہیں ہے کہ وہ کسی خوف اور صدمے کی وجہ سے گھر میں بند ہو کر بیٹھ جائیں۔

شہر کی آدھی سے زیادہ آبادی دیہاڑی دار ہے۔ روز کنواں کھودتے ہیں، روز پانی پیتے ہیں۔ گھر میں چار پانچ دن سے زیادہ کا راشن نہیں ہوتا۔ جب الطاف حسین کے دبدبے میں پورا کراچی آدھے گھنٹے کے اندر اندر بند ہو جاتا تھا تو 48 گھنٹے کے بعد لوگ ’بھائی گیا بھاڑ میں‘ کہتے ہوئے آہستہ آہستہ اپنے دھندوں کے لیے نکل پڑتے تھے۔

لیکن اب وہ ان دھندوں کے لیے جائیں بھی تو کہاں؟ ہر غریب امیر سکول کے باہر ایک بھنی ہوئی مکئی بیچنے والا یا ٹافیوں کی چھابڑی والا۔ سکول بند تو دھندا بند۔

ہر چھوٹے بازار کے کونے پر ایک موچی جو بابوؤں کے جوتے پالش کر کے اور مزدوروں کی چپلیں گانٹھ کر کے حلال رزق بنانے والا، بازار بند تو اس کا روزگار بھی بند۔

ساحلِ سمندر پر تھرماس سے قہوہ بیچنے والے، کرارے پاپڑ والے، اونٹوں اور گھوڑوں پر سواری کرانے والے۔ ساحلِ سمندر بند تو گھر کا چولہا بھی بند۔ ہر چھوٹے بازار کے کونے پر ایک موچی جو بابوؤں کے جوتے پالش کر کے اور مزدوروں کی چپلیں گانٹھ کر کے حلال رزق بنانے والا، بازار بند تو اس کا روزگار بھی بند

سڑک کے کنارے ہتھوڑی، چھینی، ڈرل مشین، پینٹ برش لے کر آجر کا انتظار کرتے مزدور، وہ کھائیں یا کورونا سے بچیں؟

ٹریفک لائٹ پر غبارے، کھلونے بیچتے بچے اور 10 روپے کے عوض آپ کو حاجی صاحب کہنے والی بوڑھی عورت، شہر کے لاک ڈاؤن کے بعد یہ سب لوگ کہاں جائیں گے؟

سندھ حکومت کے مخالف بھی اور وہ لوگ بھی جو بھٹو کے نام کے ساتھ گالی دینا اپنا سیاسی فرض سمجھتے ہیں اس بات کے معترف ہیں کہ سندھ حکومت نے باقی صوبوں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی دکھائی ہے۔ سکول، کالج، بازار بند کر کے لوگوں کو اس وبا سے بچنے کے لیے تیار کیا ہے۔

اب کیا ہی اچھا ہو کہ شہر میں پھیلے رفاہی اداروں کے جال جیسے ایدھی، سیلانی، امن فاؤنڈیشن اور اس جیسے بہت سے دوسرے اداروں کے ساتھ میں کر ان محنت کشوں کے لیے راشن اور دوسری ضروریاتِ زندگی کا بندوبست کیا جائے ورنہ صاحبِ حیثیت تو گھروں میں بند ہو کر اپنا منرل واٹر پیتے رہیں گے، لیکن مزدور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر رزق کی تلاش میں نکلنے پر مجبور ہوگا۔

تحریر: محمد حنیف

بشکریہ بی بی سی اردو

فرض کریں آپ بنگالی ہیں۔۔۔

فرض کریں آپ کراچی میں رہنے والی چوتھی نسل کے بنگالی ہیں۔ زیادہ تر امکان ہے کہ آپ غریب ہیں لیکن ہر غریب کی طرح آپ کو بھی بچے پڑھانے کا بہت شوق ہے۔

فرض کریں کہ آپ کچھ خوش قسمت بھی ہیں کیونکہ نہ صرف آپ کی بچی کو پڑھنے کا بہت شوق ہے بلکہ اسے ’سٹیزن فاؤنڈیشن‘ نامی ادارے کے سکول میں مفت تعلیم بھی مل رہی ہے۔

بچی ہر کلاس میں ٹاپ کر کے آگے بڑھتی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر، پائلٹ یا مارک زکربرگ بننے کے خواب دیکھتی ہے۔ آپ بھی اسے خواب دیکھنے سے نہیں روک سکتے اور بچی یہ خواب دیکھتے دیکھتے نویں جماعت میں پہنچ جاتی ہے اور وہاں اسے بتایا جاتا ہے کہ وہ دسویں جماعت کا بورڈ کا امتحان نہیں دے سکتی کیونکہ آپ کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے۔

آپ کے ماں، باپ بھی یہیں پیدا ہوئے تھے، ان کے ماں باپ بھی یہیں پلے بڑھے تھے۔ آپ کے والد کے پاس شناختی کارڈ بھی تھا۔ آپ کے پاس بھی اپنا برتھ سرٹیفیکیٹ، بچی کا برتھ سرٹیفیکیٹ موجود ہے لیکن نادرا بنی، کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ آئے تو حکومت نے اپنے ہی بنائے ہوئے شہریت ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آپ کو سرکاری ریکارڈ سے غائب کر دیا۔

آپ کی بچی کے خواب نویں جماعت کے ساتھ دم توڑ جائیں گے وہ کبھی دسویں جماعت کا امتحان نہیں دے سکے گی۔

فرض کریں آپ ایک بنگالی نوجوان ہیں۔ آپ کو کچھ کرنا نہیں آتا، بس گاڑی چلانی سیکھ لی تھی۔ کراچی ظالم شہر ہے مگر اتنا ظالم بھی نہیں۔ سرکاری ٹرانسپورٹ نہیں ہے تو پرائیوٹ بسوں پر چلتا ہے۔ ملک کے دوسرے حصوں سے بُرا ڈرائیور بھی آتا ہے تو 20 ہزار کی نوکری پکڑ لیتا ہے۔ بنگالی بچے اپنے علاقوں میں واقع عارضی سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں

آپ تو یہیں کی جم پل ہیں، شہر کے راستے بھی جانتے ہیں لیکن ڈرائیور کی نوکری کے لیے ڈرائیونگ لائسنس چاہیے اور اس کے لیے کیا چاہیے؟ جی ہاں شناختی کارڈ۔ آپ کے والد کے پاس تھا، آپ کے پاس نہیں ہے۔ کراچی میں ڈرائیور بننے کا خواب دیکھنا بند کر دیں۔

فرض کریں آپ چار بچوں کی ماں ہیں اور ان کے سر پر چھت رکھنے کے لیے، ان کا پیٹ پالنے کے لیے کسی سیٹھ کے گھر میں جھاڑو لگاتی ہیں۔ سیٹھ مہربان ہے، ایک وقت کا کھانا دیتا ہے، صرف 10 گھنٹے کام لیتا ہے اور اتوار کی چھٹی بھی دیتا ہے لیکن تنخواہ کم دیتا ہے۔

آپ نے محلے والوں سے سنا ہے کہ حکومت نے بےنظیر کے نام پر ایک پروگرام رکھا ہے جس میں آپ جیسی محنت کش خواتین کو ہر مہینے چند ہزار روپے ملتے ہیں۔ آپ کو پتا ہے کہ یہ افواہ نہیں ہے۔ آپ کی جاننے والیوں کو، سہیلیوں کو یہ پیسے مہینے کے مہینے ملتے ہیں۔ وہ چند ہزار روپے جن سے بچوں کے جوتے خریدے جا سکتے ہیں، مہینے میں ایک بار چکن کھایا جا سکتا ہے۔

وہ چند ہزار روپے آپ کو نہیں مل سکتے کیونکہ آپ بنگالی ہیں، آپ کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے۔ آپ کے والد کے پاس تھا۔ آپ کو اندازہ ہے کہ اس ملک کے ساتھ ایک سانحہ ہوا تھا، آپ کی پیدائش سے پہلے بنگالیوں نے لڑ کے اپنا ملک بنا لیا تھا، بنگلہ دیش۔ لیکن جب وہ ملک بنا تو آپ کا باپ پاکستانی تھا اور یہاں کراچی میں کیکڑے پکڑتا تھا۔

فرض کریں کہ آپ بنگالی ہیں اور کراچی میں رہتے ہیں اور کوئی آپ سے پوچھے کہ کراچی میں کتنے بنگالی رہتے ہیں تو آپ کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ 20 لاکھ یا 30 لاکھ۔ آبادی کی گنتی کرنے والے بھی آپ کو بھول چکے ہیں۔

ان کو یہ بھی یاد نہیں کہ آپ وہ بنگلہ دیشی نہیں ہیں جو 1980 کی دہائی میں پورا انڈیا پیدل چل کر روزی روٹی کی تلاش میں کراچی پہنچے تھے۔ اب وہ بنگلہ دیش اتنی ترقی کر چکا ہے کہ ہمارا سیٹھ رہتا تو کراچی میں ہے لیکن فیکٹری ڈھاکہ کے مضافات میں ٹیکس فری زون میں لگاتا ہے۔ کیا میں پاکستانی نہیں ہوں؟

فرض کریں آپ کراچی میں رہنے والے بنگالی ہیں تو آپ نے زندگی میں صرف ایک دفعہ خواب دیکھا تھا جب عمران خان کراچی آیا تھا اور جلسے میں کھڑے ہو کر کہا تھا کہ آپ لوگوں کو شہریت ملے گی۔ ویسے تو پورے پاکستان کو عمران خان سے عشق ہے لیکن اس تقریر کے بعد جتنا عشق بنگالیوں کو عمران خان سے ہوا، جتنی دعائیں اس کے لیے بنگالیوں کے دلوں سے نکلیں، وہ عمران خان کو پہلے کبھی نہ ملی ہوں گی۔

ابھی بھی کراچی کے بنگالی عمران خان سے امید لگا کر بیٹھے ہیں۔ ساتھ خوف بھی ہے کہ ان کے وزیر اور مشیر وہ پرانا مشورہ نہ دے دیں کہ یہ کراچی کے بنگالی کیا کر لیں گے، آگے سمندر ہے۔

کاش عمران خان ایک دفعہ مچھر کالونی آئے اور دیکھے کہ آگے سمندر ہے والی منطق کتنی لایعنی ہے۔ ہم تو پہلے ہی سمندر پر کچرا ڈال کر اس پر گھر بنا کر بیٹھے ہیں۔

فرض کریں آپ بنگالی ہیں۔ آپ کی نویں جماعت تک ٹاپ کرنے والی بیٹی، ڈاکٹر، پائلٹ، مارک زکربرگ بننے کا خواب دیکھنے والی بیٹی اب گھر میں بیٹھی ہے اور اس کی شادی ہونی ہے۔ بیٹی سگھڑ ہے، دسویں جماعت میں ٹاپ نہ کرنے کا غم پتا نہیں بھول سکی ہے یا نہیں لیکن اس کا ذکر نہیں کرتی۔ محلے کے مدرسے میں یا سکول جا کر بچوں کو پڑھا بھی آتی ہے۔

اب اس کا رشتہ دیکھنے آئیں گے تو بیٹی چائے بھی پیش کرے گی اور تکلفات کے بعد رشتہ لانے والے پوچھیں گے، بیٹی کا شناختی کارڈ ہے؟

تحریر: محمد حنیف

بشکریہ بی بی سی اردو