Boycott French Products

In Pakistan, from last few days, everyone is talking about boycott France. We are as a nation, very impulsive, always follow heart, never use our head. Boycott imported goods only effect local traders, because on import stage, we already paid to french companies. They damn care about our boycott. If we really interested to dent French economy then ban all type of imports from France. But in Pakistan, no one bother to think like that neither govt nor Mullas. Sadly most people who chanting about boycott are mostly  keyboard activists. I’m afraid, people will forget this matter sooner as usual, right after some M. A Jinnah road protests, banners, Fb posts, status, whtsapp messages… And life goes on.
اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگیں گے

پیٹ کا مسئلہ ہے

ایک نقطہ محرم کو مجرم بنانے کے لیے کافی ہے لہٰذا ترجمہ ہمیشہ احتیاط سے کرنا چاہیے کیونکہ لفظ کے پیچھے پوری ثقافتی و سماجی تاریخ ہوتی ہے۔


جیسے سیاحوں کو ٹریول گائیڈز پر علاقے کی حساسیت اور کس اشارے کا کیا مطلب لیا جا سکتا ہے، سمجھاتے ہیں اسی طرح ترجمہ کرتے وقت بھی یہی اصول پیشِ نظر رہنا چاہیے ورنہ بات کہیں سے کہیں نکل کے کیا سے کیوں ہو جاتی ہے۔

بنیادی طور پر تو یہ تولیدی صحت سے متعلق بین الاقوامی نعرہ تھا کہ ’مائی باڈی مائی کنٹرول‘۔ جس کا ترجمہ ایک عرصے تک ’میرا وجود میرا اختیار‘ کیا جاتا رہا۔ پھر کسی نے گذشتہ سے پیوستہ برس اپنے پلے کارڈ پر مائی باڈی مائی کنٹرول کا ازخود ترجمہ ’میرا جسم میری مرضی‘ لکھ دیا۔


بس پھر کیا تھا جو پہلے سے تاک میں تھے انھوں نے اس پلے کارڈ کو ایندھن بنا لیا اور ضد میں دوسرا فریق بھی اسی نعرے پر ڈٹ گیا۔ اس چکر میں عورت کے حقوق کی بنیادی بحث دیوار پھاند کے کہیں نکل لی۔

مگر یہ کہنا بھی زیادتی ہو گی کہ اگر ’میرا جسم میری مرضی‘ کا نعرہ نہ لکھا جاتا تو عورت مارچ کی مخالفت نہ ہوتی۔ پنجابی میں کہتے ہیں ’من حرامی حجتاں ڈھیر‘ یعنی من آمادہ بہ شرارت ہو تو بہانے بہت۔

بیسویں صدی کے وسط تک زیادہ تر مذہبی طبقہ عورتوں کی بس اتنی تعلیم کے حق میں تھا کہ وہ قران ترجمے کے ساتھ پڑھ سکیں۔ البتہ لکھائی سکھانے کی حوصلہ شکنی کی جاتی مبادا وہ کسی غیر مرد کو خط نہ لکھ دیں۔ اور یہ اس سماج میں ہو رہا تھا جسے ڈیڑھ ہزار برس پہلے صاف صاف کہا گیا تھا کہ حصولِ علم عورت اور مرد پر لازم ہے۔ شکر ہے پچھلے چند عشروں میں زہن اور زمانہ بدلا اور آج حصولِ تعلیم کی دوڑ میں لڑکیاں لڑکوں سے آگے ہیں۔


مگر یہ یونہی نہیں ہو گیا۔

قیامِ پاکستان کے فوراً بعد جب بیگم رعنا لیاقت علی خان نے آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن (اپوا) کے تحت لڑکیوں کے لیے جدید تعلیمی ادارے کھولنے کی مہم شروع کی تو دیواروں اور منبروں پر ’اپوا کی مغرب زدہ فیشن ایبل مذہبی اقدار سے نالاں آدھی آستین پہننے اور دوپٹہ گلے میں ڈالنے والی بے پردہ خواتین‘ کے خوب لتے لیے جاتے تھے۔ بالکل ایسے ہی جیسے انگریزی تعلیم کے مخالف سرسید کو چندہ دینے کے بجائے جوتے دکھاتے تھے۔

حالانکہ اپوا کی خواتین نے تو عورت مارچ کا نام تک نہ سنا تھا۔

جب ایوب خان کے دور میں خاندانی منصوبہ بندی کا محکمہ قائم ہوا تو کیا کیا فتوے نہ آئے کہ یہ خدائی نظام میں مداخلت کی سازش ہے اور اس کا مقصد گھر میں بیٹھی عورتوں کو بغاوت پر آمادہ کرنا اور معاشرے میں عریانی و بے غیرتی پھیلانا ہے۔

مگر آج آپ کو کسی خطبے میں یہ موضوع کہیں سنائی نہیں دے گا۔ سب ہی قائل ہیں کہ آبادی کا بے ہنگم پھیلاؤ قومی صحت و سلامتی کے لیے ٹھیک نہیں۔

اس کے باوجود بچے کتنے اچھے؟ یہ فیصلہ آج بھی بہت کم گھرانوں میں دونوں کی مرضی سے ہوتا ہے۔ اکثر یہ فیصلہ مرد ہی کرتا ہے اور دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ مرد جتنا غریب، ویلا اور ناخواندہ ہو گا بچے اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔ دراصل اسی رجحان کو بدلنے کے لیے ’مائی باڈی مائی کنٹرول‘ کا نعرہ سامنے آیا تھا جسے اب مذاق بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اسی طرح تین طلاق کا مسئلہ بھی تھا۔ ایک عرصے تک ایک ہی سانس میں تین طلاقیں دینے کے عمل کو جائز سمجھا جاتا رہا اور اس کی مخالفت کرنے والوں کو دین دشمن (اردو فلموں میں بھی طلاق اسی اصول کے تحت دی جاتی تھی)۔


لیکن ستمبر 2018 میں اسلامی نظریاتی کونسل نے ایک ہی سانس میں تین طلاق دینے کے رواج کو قابلِ سزا جرم بنانے کی سفارش کی اور انڈین سپریم کورٹ نے بھی تین برس پہلے یک لخت تین طلاق دینے کے رواج کو بنیادی آئینی حقوق کے خلاف قرار دے دیا۔ مگر تب تک مسئلہ طلاق کی مختلف تشریحات اور ان پر اڑ جانے کے سبب بے شمار گھر اجڑ چکے تھے۔

اسی طرح گھریلو تشدد بھی ’تیرا جسم میری مرضی‘ کے اصول کے تحت سماجی طور پر صدیوں قابلِ قبول سمجھا جاتا رہا اور اب بھی ایسا ہی ہے۔ مگر چار برس پہلے گھریلو تشدد بھی پاکستان میں قابلِ تعزیر قرار پایا اور گذشتہ برس پہلی بار اس قانون کے تحت سزا بھی سنا دی گئی۔

عورت مارچ
عورت حکمران ہو سکتی ہے کہ نہیں، یہ مسئلہ ریاست بھوپال کے علما نے کبھی نہیں اٹھایا حالانکہ وہاں یکے بعد دیگرے کئی خواتین حکمران رہیں اور انھوں نے عورتوں کی جدید تعلیم اور ترقی کے لیے ہر اول کا کام کیا۔ مگر پاکستان میں محترمہ فاطمہ جناح صدرِ مملکت بن سکتی ہیں یا نہیں اس بابت علما ساٹھ کی دہائی میں دو حصوں میں بٹ گئے۔


ایوبی علما نے عورت کی حکمرانی کو سیدھا سیدھا حرام قرار دے دیا۔ جبکہ مولانا مودودی سمیت حزبِ اختلافی اکابرین نے طوعا ً کرہاً اس جواز کے سہارے محترمہ کی حمایت کا فیصلہ کیا کہ اپوزیشن کا مقابلہ ایک ایسے فوجی آمر سے ہے جو پاکستان کو سیکولر ریاست بنانا چاہتا ہے اور یہ معاملہ عورت کی حکمرانی سے زیادہ سنگین ہے۔ (ویسے جماعتِ اسلامی ہند اور جمیعت علمائے ہند کا پچھلے تہتر برس سے یہ مؤقف ہے کہ ہندوستان کی نسلی، مذہبی و قومی بقا سیکولر نظام میں ہی ممکن ہے)۔

لیکن اسی پاکستان میں جب انیس سو اٹھاسی میں مولانا فضل الرحمان نے عورت کی حکمرانی کو حرام اور ناقابلِ قبول کہا اور پھر یہی عورت کی حکمرانی کشمیر کمیٹی اور خارجہ امور کمیٹی کی سربراہی اور ’دیگر یقین دہانیوں‘ کے عوض حلال ہو گئی۔ شکر ہے تب سے کم از کم یہ موضوع نان ایشو کی فہرست میں آ گیا مگر اب حرام کی فہرست میں عورت مارچ کو ڈال دیا گیا۔

عورت مارچ تو پاکستان سمیت دنیا بھر میں کئی برس سے ہوتا آ رہا ہے تو پھر پچھلے تین برس میں ایسے کیا سرخاب کے پر لگ گئے کہ اب ہر کوئی حق یا مخالفت میں آمنے سامنے ہے۔

بات یہ ہے کہ جب نعرے بنانے اور لکھنے والوں کی لسانی قابلیت و دسترس کمزور ہو، جب مذہبی و سیاسی دوکان چمکانے کے لیے اصل مسائل پر بات کرنے سے پر جلتے ہوں اور جب میڈیا کو حقیقی موضوعات پر بحث کی اجازت دینے کے بجائے ریٹنگ کے جنگل کی جانب ہنکال دیا جائے تو جو سب سے کمزور موضوع ہو گا اسی پر تو میڈیا دانت گاڑے گا۔ آخر پیٹ تو سب کو لگا ہوا ہے اور پیٹ کا بس ایک ہی نظریہ ہوتا ہے یعنی نظریہِ ضرورت۔۔۔

وسعت اللہ خان

بشکریہ BBC URDU

پاکستان زندہ باد

لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہندوستان کا آخری وائسرائے تھا‘ یہ مارچ 1947میں آیا اور جون 1948تک ہندوستان میں رہا‘یہ بادشاہ جارج ششم کا کزن تھا‘ وائسرائے ہندوستان روانہ ہونے سے پہلے سر ونسٹن چرچل سے ملاقات کے لیے گیا‘ چرچل دانش ور بھی تھا‘ سیاست دان بھی اور دوسری جنگ عظیم کا ہیرو بھی‘ چرچل نے لارڈ کو مشورہ دیا‘ تم ہندوستان جا کر تمام لیڈروں سے ملاقات کرو لیکن مہاتما گاندھی سے بچ کر رہنا‘ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے حیرت سے پوچھا ’’کیوں؟‘‘ چرچل نے جواب دیا ’’قدرت نے اسے قائل کرنے‘ دوسروں کو اپنے ساتھ ملانے کی بے تحاشا قوت دے رکھی ہے‘ مجھے خطرہ ہے تم اس سے ملو گے تو تم اس کے قائل ہو جاؤ گے‘‘ لارڈ ماؤنٹ بیٹن خود بھی مقناطیسی شخصیت کا مالک تھا۔

وہ مشکل سے مشکل لوگوں کو قائل بھی کر لیتا تھاچناں چہ اس نے قہقہہ لگایا اور ہندوستان آ گیا‘ وہ ہندوستان آیا‘ہندوستانی لیڈروں سے ملا اور دو لیڈروں کی فراست اور سادگی نے اسے قائل کر لیا‘ پہلے لیڈر قائداعظم محمد علی جناح تھے اور دوسرے مہاتما گاندھی‘ وہ کہتا تھا قائداعظم کے دلائل اور ذہانت کا کوئی مقابلہ نہیں جب کہ مہاتما گاندھی کی سادگی اور موقف کی شفافیت دونوں لاجواب ہیں‘ وہ کہتا تھا یہ دونوں لیڈر ہندوستان میں امن چاہتے ہیں‘ یہ دونوں کشت وخون‘ جنگ وجدل اور مذہب اور کلچر کی بنیاد پر ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کے خلاف ہیں‘ دونوں کا مقصد ایک ہے لیکن طریقہ کار مختلف ہے‘ قائداعظم محمد علی جناح کا خیال ہے مسلمانوں کو پاکستان اور ہندوؤں کو بھارت دو ملکوں میں رکھ کر ہی امن قائم ہو سکتا ہے۔

ہندو اور مسلمان ایک دوسرے سے مختلف ہیں‘ یہ مرنے تک لڑتے رہیں گے لہٰذا دونوں کو الگ الگ سرحدوں میں رکھ دیا جائے جب کہ گاندھی کا خیال ہے ہندوستان تقسیم نہیں ہونا چاہیے‘ ہم ایک ایسا آئین اور سسٹم بنا لیتے ہیں جس میں ہندو‘ ہندو اور مسلمان مسلمان رہ کر زندگی گزار سکیں‘ یہ دونوں ایک دوسرے کے عقائد پر اثرانداز ہوئے بغیر اکٹھے رہ سکیں‘ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا خیال تھا یہ دونوںسیکولر لیڈر ہیں‘ قائداعظم ایک ایسا پاکستان بنانا چاہتے ہیں جس میں مسلمانوں کی اکثریت ہو لیکن اقلیتوں کو مکمل حقوق حاصل ہوں‘ دوسری طرف گاندھی کا خیال ہے ہمارا انڈیا مکمل سیکولر ہو گا‘ اس میں کوئی شخص مذہب کی بنیاد پر کسی شخص پر انگلی نہیں اٹھا سکے گا‘ انڈیا کا ہر شہری صرف انڈین ہو گا‘ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا کہنا تھا میں نے دونوں کی رائے کا احترام کیا‘ قائداعظم کو مسلمانوں کا ملک دے دیا اور گاندھی کو ہندوؤں کا انڈیا ‘ اقلیتیں دونوں کے پاس ہیں‘ پاکستان میں بھی ہندو‘ سکھ‘ عیسائی اور پارسی ہیں اور انڈیا میں بھی مسلمان‘ سکھ‘ عیسائی‘ پارسی اور بودھ ہیں‘ اب قائداعظم کا پاکستان جیتتا ہے یا پھر گاندھی کا یہ فیصلہ وقت کرے گا۔

لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہندوستان تقسیم کر کے برطانیہ چلا گیا لیکن انڈیا اور پاکستان کا نظریہ وقت کی لہروں پر آگے بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ آج 73برس ہو چکے ہیں‘ ان 73برسوں نے چند حقائق ثابت کر دیے‘ پہلی حقیقت پاکستان کی میچورٹی ہے‘ یہ درست ہم اقلیتوں کو وہ حقوق نہیں دے سکے جو قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کے ہندوؤں‘ سکھوں‘ عیسائیوں اور پارسیوں کو دینا چاہتے تھے‘ یہ آج بھی خود کو پاکستان میں اجنبی محسوس کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت ہے جتنا عدم تحفظ پاکستان کی سرحدوں کی دوسری طرف ہے ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے‘ آپ بھارت میں دنگوں اور فسادات کی تاریخ دیکھ لیں۔

آپ کو گلیوں میں ناچتی وحشت قے پر مجبور کر دے گی‘1992میں بابری مسجد شہید کر دی گئی‘ ایک مسجد نے کسی کا کیا بگاڑا تھا لیکن انتہا پسندوں نے گنبد پر چڑھ کر مسجد شہید کر دی‘ اس سانحے کو آج 28برس ہو چکے ہیں لیکن نفرت کی آگ نہیں بجھی‘ داؤد ابراہیم ہو‘ چھوٹا شکیل ہو یا پھر یعقوب میمن جیسے مسلمان گینگسٹر ہوں یہ سب بابری مسجد اور انتہا پسندوں کی نفرت کا جواب ہیں‘ نریندر مودی نے 2002 میں گجرات میں کیا کیا ؟ دو ہزارمسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا‘ گھر‘ دکانیں اور گاڑیاں جلا دیں اور مسلمان خواتین کو گلیوں میں سرعام ریپ کیا گیا‘ کشمیر کی داستان تو ہے ہی فرعونیت کی داستان‘ یہ خطہ 73برسوں سے سلگ رہا ہے۔

اس میں موت بوئی اور موت کاٹی جا رہی ہے‘ کشمیر میں کرفیو کو 215دن ہو چکے ہیں‘ اسپتال‘ اسکول اور مارکیٹیں بھی بند ہیں اور انٹرنیٹ اور فون سروس بھی‘ چھ ہزار نوجوان گھروں سے غائب ہیں اور آج دہلی میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھی پوری دنیا کے سامنے ہے‘ 8دنوں میں 40مسلمان شہید اور 200زخمی ہو چکے ہیں‘ لوگوں کے گھر‘ دکانیں اور گاڑیاں تک جلا دی گئیں اور پولیس تماشا دیکھتی رہی‘ بھارتی میڈیا اپنے منہ سے بول رہا ہے پولیس اور فوج نے کھل کر بلوائیوں کا ساتھ دیا‘ یہ مسلمانوں کو پکڑ کر انتہا پسندوں کے حوالے کر دیتے تھے اور وہ انھیں ڈنڈوں‘ راڈز اور پتھروں سے کچل دیتے تھے۔

خواتین کو ریپ بھی کیا گیا اور بچوں کو گاڑیوں تلے بھی روند دیا گیا‘ یہ ظلم صرف مسلمانوں تک محدود رہتا تو شاید گاندھی کے سیکولرازم کی عزت بچ جاتی لیکن 1984 میں سکھوں کے گولڈن ٹیمپل کے ساتھ کیاہوا؟ اندرا گاندھی کے حکم پر فوج گولڈن ٹیپمل میں داخل ہوئی اورتین ہزار زائرین کو بھون کر رکھ دیا‘ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد دہلی میں سکھوں کے ساتھ دوبارہ کیا سلوک ہوا؟ سیکڑوںسکھ خواتین ریپ ہوئیں اور اربوں روپے کی پراپرٹیز جلا کر راکھ کر دی گئیں‘بھارت میںعیسائیوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ بھارت عیسائیوں پر حملوں میں10 بدترین ممالک میں شامل ہے‘ 2018 میں مسیحی برادری پر 12000 حملے ہوئے‘درجنوں چرچ بھی جلادیے گئے اور سیکڑوںعیسائی قتل بھی کر دیے گئے‘ بھارت میں 1948 میں 30ہزاریہودی تھے‘ آج صرف پانچ ہزار ہیں‘ باقی بھارت چھوڑ کر جا چکے ہیں‘ بودھوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ آپ کسی دن یہ ڈیٹا بھی نکال کر دیکھ لیں اور آپ انڈیا میں 35کروڑ دلتوں کے ساتھ سلوک بھی دیکھ لیجیے۔

یہ لوگ آج بھی انسانوں کے برابر حقوق حاصل نہیں کر سکے‘ یہ آج 21 ویں صدی میں بھی جانوروں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں‘ ہم پاکستانی بھی نفرت سے بھرے ہوئے ہیں لیکن نفرت‘ شدت‘ تعصب اور جانب داری نے انسانیت کی جتنی دیواریں بھارت میں پھلانگی ہیں اور لوگ عقائد اور نسلوں کی جتنی سزا وہاں بھگت رہے ہیں ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے‘ یہ درست ہے بھارت نے پچھلے 30 برسوں میں معاشی ترقی کی‘ آج وہاں 138ارب پتی ہیں‘ یہ دنیا کی پانچویں بڑی معاشی طاقت بھی ہے لیکن یہ سماجی‘ انسانی اور مذہبی سطح پر انسانیت سے جتنا نیچے گیا ہم وہ سوچ بھی نہیں سکتے‘ مسلمان‘ سکھ اور دلت آج بھی کسی برہمن کے گلاس میں پانی اور پلیٹ میں کھانا نہیں کھا سکتے۔

یہ ان کے سائے پر بھی پاؤں نہیں رکھ سکتے چناں چہ ہم کہہ سکتے ہیں بھارت جس تیزی سے معاشی ترقی کر رہا ہے یہ اس سے ہزار گنا تیزی سے شرف انسانیت سے نیچے جا رہا ہے اور یہ تیزی ثابت کر رہی ہے یہ اب زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہ سکے گا۔مجھے آج قائداعظم محمد علی جناح کے الفاظ بار بار یاد آرہے ہیں‘ قائد نے کشمیری رہنماؤںسے کہا تھا‘ تم نے اگر پاکستان سے الحاق نہ کیا تو تمہاری نسلیں پچھتائیں گی‘ آج ہندوستان میں موجود ہر اقلیتی خاندان کی نسلیں پچھتا رہی ہیں۔

مجھے کل دہلی کے ایک مسلمان نے فون کر کے کہا ’’بھائی صاحب آپ لوگ یہاں سے نکل گئے‘ آپ پر اللہ نے بڑا کرم کیا‘ ہم لوگ جو یہاں رہ گئے وہ اب جان بچانے کے لیے ماتھے پر تلک لگاتے ہیں‘ اپنے ناموں کے ساتھ رام لکھتے ہیں اور اپنے بچوں کے ختنے نہیں کرتے‘‘ میں سکتے میں آ گیا‘ وہ بولے ’’جناب ہم اپنے بچوں کو بچپن میں تربیت دیتے ہیں‘ وہ باہر کسی جگہ اللہ اور اس کے رسولؐ کا نام نہ لیں‘ ٹھڈا لگ جائے تو زبان سے ہائے رام اور دل میں یا اللہ کہیں لیکن ہم اس منافقت کے باوجود بھی یہاں محفوظ نہیں ہیں‘‘ اس کا کہنا تھا ’’پاکستان کے ہر شخص کو میرا پیغام دے دیں‘ اسے کہیں دہلی کا محمد خالد کہہ رہا ہے تم ایک بار دہلی آ کر دیکھ لو‘ تم مان جاؤ گے‘ پاکستان کتنی بڑی نعمت‘ اللہ کا کتنا بڑا انعام ہے لہٰذا اس کی قدر کرو‘ اللہ کا شکر ادا کرو‘ تم کم از کم اپنے بچوں کے کانوں میں اذان تو دے لیتے ہو‘ تم ان کے ختنے تو کر رہے ہو‘ ہم تو جان بچانے کے لیے ان سے بھی تائب ہو رہے ہیں‘ ‘میں کانپ گیا‘ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اٹھ کر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا۔

جاوید چوہدری

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس

:-(پھر بھی ہم جننتی ہیں کیونکہ ہم مسلمان ہیں۔۔۔۔

After reading this horrifying news, now I realized why ALLAH doesn’t respond to our prayers, why we are always humiliated in world.Its so funny for me, now days we condemn Israel for killing innocent kids and women in Gaza and in Pakistan we are doing same thing in Pakistan and no one bother to stand and raise voice for innocent victims. What a hypocrite nation we are.

http://jang.com.pk/jang/jul2014-daily/28-07-2014/u24785.htm
http://tribune.com.pk/story/741943/three-including-two-minors-dead-in-gujranwala-clash/