Boycott French Products

In Pakistan, from last few days, everyone is talking about boycott France. We are as a nation, very impulsive, always follow heart, never use our head. Boycott imported goods only effect local traders, because on import stage, we already paid to french companies. They damn care about our boycott. If we really interested to dent French economy then ban all type of imports from France. But in Pakistan, no one bother to think like that neither govt nor Mullas. Sadly most people who chanting about boycott are mostly  keyboard activists. I’m afraid, people will forget this matter sooner as usual, right after some M. A Jinnah road protests, banners, Fb posts, status, whtsapp messages… And life goes on.
اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگیں گے

کھلن کو مانگے چاند رے

جن ممالک نے سنجیدگی سے لاک ڈاؤن کرنا تھا انھوں نے لاک ڈاؤن کر ڈالا۔ عوام کو اس دوران زندہ رہنے کے لیے نقد و جِنس کی شکل میں بنیادی مدد بھی فراہم کی۔ ان ممالک کے کارپوریٹ سیکٹر نے بھی کاروبار کی تباہی اور بے روزگاری کا رونا رونے کے بجائے حکومتوں سے پوچھا ہم آپ کی کیا مدد کر سکتے ہیں؟

حکومتوں نے کہا حفاظتی سوٹ، ماسک، شیلڈز، فیلڈ ہسپتالوں کے لیے بڑی عمارتیں، میدان، ضروری سامان، مفت تقسیم ہونے والا سینیٹائزر، وینٹی لیٹرز اور طبی فضلے کو ٹھکانے لگانے کے لیے الیکٹریکل بھٹیاں (انسنیریٹرز)، بجلی، پانی، گیس کی مسلسل سپلائی اور شہریوں کے یوٹیلٹی بلز کا التوا چاہیے۔ بیشتر کارپوریٹ سیکٹر نے کہا ہم تیار ہیں۔

حکومتوں نے کہا شکریہ۔ آپ آڑے وقت میں ہماری مدد کر رہے ہیں۔ وبا کے بعد ہم کھڑا ہونے میں آپ کی مدد کریں گے۔ بیشتر کارپوریٹ سیکٹر نے کہا شکریہ۔

حکومتوں نے کہا ہمیں ڈھائی لاکھ رضاکار چاہییں جو ہسپتالوں، بنیادی اشیا تقسیم کرنے والے اداروں، لاک ڈاؤن پر عمل کروانے والے اداروں کی مدد کر سکیں۔

چین، تائیوان، برطانیہ اور سپین سمیت کئی ممالک میں لوگوں نے کہا لبیک۔ اور اتنے رضاکار ہو گئے کہ حکومتوں نے کہا بس ہمیں اتنے نہیں چاہییں۔

حکومتوں نے کہا وبا ہمارے اندازوں سے زیادہ سنگین ہے لہذا چند ہفتے اور لاک ڈاؤن برداشت کرنا پڑے گا پھر ہم مرحلہ وار اسے نرم کرنے کی کوشش کریں گے۔ لوگوں نے کہا لبیک۔

جن جن ممالک میں یہ سب ہوا۔ اب انھیں شجرِ امید پر محنت کا بُور نظر آ رہا ہے بہت سے ممالک میں متاثرین کے اعداد و شمار عروج پر پہنچنے کے بعد رفتہ رفتہ نیچے اتر رہے ہیں۔ زندگی خود کو نئی حقیقتوں کی عادی بناتی جا رہی ہے۔

مگر کئی ایسے ممالک بھی ہیں جنھوں نے پہلے پہل تو لشکرِ وبا کو ہنوز دلی دور است کے ترازو پر تولا اور اب جبکہ دلی محاصرے میں ہے تو کچھ ہُش ہُش کی آوازیں نکال کر کورونا کو ڈرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کچھ کورونا سے ڈرنا نہیں رونا ہے پر عمل پیرا ہیں، کچھ کورونا سے ڈرنا نہیں آپس میں لڑنا ہے کھیل رہے ہیں۔ کچھ کی خواہش ہے کہ لاک ڈاؤن ہو بھی تو ’خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں‘ جیسا ہو۔

ہم نے لاک ڈاؤن کو بھی بنی اسرائیل کا بچھڑا بنا دیا۔ کتنا اونچا لمبا ہو، رنگ کیا ہو، سینگ سفید ہوں کہ سیاہ، سونے کا بنایا جائے کہ پیتل کا، بنا کے معبد میں رکھا جائے یا اس کے صحن میں۔ اگر پنجابی میں ہے تو عبرانی میں بھی یہ محاورہ ضرور ہو گا کہ ’من حرامی تے حجتاں ڈھیر۔‘

کبھی کہتے ہیں لاک ڈاؤن اشرافیہ نے لگوایا، کبھی کہتے ہیں آپ کے بھائی نے لگایا، کبھی کہتے ہیں لاک ڈاؤن کی وجہ سے کورونا کم پھیلا ہے اور جانی نقصان باقی ممالک سے کم ہے، کبھی کہتے ہیں لاک ڈاؤن سے اتنے لوگ نہیں مریں گے جتنے بھوک سے مر جائیں گے۔

تادمِ تحریر پاکستان میں کورونا سے لگ بھگ 440 اموات ہوئی ہیں۔ کوئی بتائے گا پچھلے دو ماہ میں بھوک سے کتنے لوگ مرے ہیں؟ اس عرصے میں کورونا سے لگ بھگ 20 ہزار افراد کے متاثر ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔ کوئی بتائے گا کہ اس عرصے میں فاقے کے وائرس سے کتنے پاکستانی نڈھال ہو کے گرے ہیں؟

اب ایک نئی میڈ ان پاکستان اصطلاح متعارف ہوئی ہے۔ سمارٹ ٹیسٹنگ، سمارٹ لاک ڈاؤن۔ جن پر روایتی لاک ڈاؤن لاگو نہ ہو سکا ان پر سمارٹ لاک ڈاؤن کا مسمریزم کیا جائے گا؟ جتنی ریاست سمارٹ بننے کی کوشش کر رہی ہے اس سے کہیں زیادہ عوام سمارٹ ثابت ہو رہے ہیں۔

ایسے لوگوں کو کیسے لاک ڈاؤن کیا جا سکتا ہے جنھیں قبرستانوں میں مرکزی دروازے سے نہ جانے دیا جائے تو پچھلی دیوار کے شگافوں سے اندر گھس جائیں۔ جہاں ڈبل سواری پر پابندی ہو مگر بچوں اور خواتین کو موٹر سائیکل پر گھمانے کا استثنیٰ ہو۔

دکاندار آدھے شٹر کھول کے بیٹھے ہوں اور پولیس کی گاڑی دیکھتے ہی شٹر بند کر کے پھر کھول لیتے ہوں۔ طیارے اور ٹرینیں بند ہوں مگر پرائیویٹ ٹیکسیوں کے لیے ہائی ویز کشادہ ہوں۔اور لوگ پہلے کی طرح ٹھنسے ہوئے اونچے اونچے کرائے دے کر لمبے لمبے سفر کر رہے ہوں۔

کیا عجب حیرتستان ہے جہاں عام آدمی کو سماجی دوری کے فوائد بتائے جائیں اور گورنر، سپیکر حتی کہ وزیرِ اعظم کچہریاں کر رہے ہوں۔ انتظامی معائنے فرما رہے ہوں، امدادی ڈبے تھامے ہجومِ جی حضوراں کے بیچ تصویر کھچوا رہے ہوں۔ جی چاہا ماسک لگا لیا نہ جی چاہا تو نہ لگایا۔

اب ایک گورنر اور ایک سپیکر صاحب قرنطینہ میں بیٹھے اپیل کر رہے ہیں کہ جو جو ان سے پچھلے ایک ہفتے میں ملے ہیں براہِ کرم اپنے ٹیسٹ کروا لیں۔ جاگدے رہنا ساڈے تے نہ رہنا۔۔۔

تازہ ترین شگوفہ یہ ہے کہ کورونا سے نپٹنے کی راہ میں ایک بنیادی رکاوٹ اٹھارویں آئینی ترمیم ہے۔ کورونا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند رے۔

بات بس اتنی سی ہے کہ پہلے اباجی بیٹوں سے ساری تنخواہ لے کر انھیں خرچہ دیتے تھے اب بیٹے ابا جی کو خرچہ پانی دے رہے ہیں۔

تو کیا پولیو سے نمٹنے میں بھی بنیادی رکاوٹ یہی اٹھارویں ترمیم رہی؟

اور عمران چاہیں کتنی محبتیں تجھے

ماؤں نے تیرے نام پر بچوں کا نام رکھ دیا

تحریر: وسعت اللہ خان

بشکریہ بی بی سی اردو

کیا ایسی تھی ریاست مدینہ؟

مدد یوں کرو کہ ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے کو خبر نہ ہو”۔

یہ وہ بات ہے جو ہر بچہ اسلامیات یا اخلاقیات کی درسی کتاب میں پڑھتا ہے۔ مگر جب میں نے وہ تصویر دیکھی جس میں جدید ریاستِ مدینہ کے بانی اعلی حضرت ایک برقعہ پوش خاتون کو امدادی سامان کو ڈبہ تھما رہے ہیں اور ان کے برابر میں برطانیہ میں طویل زندگی بسر کر کے خدمتِ وطن کے لیے واپس لوٹ کر پنجاب کی گورنری سنبھالنے والے چوہدری محمد سرور اور وزیرِ اعلی پنجاب جناب عثمان بزدار عرف وسیم اکرم پلس اور مشیرِ اطلاعات محترمہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان ایم بی بی ایس اور ان کے برابر میں ایک بیوروکریٹ کھڑے ہیں۔ ان میں سے کسی نے نہ ماسک پہنا ہے نہ ضروری فاصلہ برقرار رکھا ہے۔ بس وزیرِ اعظم کے پیچھے فاصلے سے کھڑے دو اسٹافرز نے ماسک لگایا ہوا ہے۔

ماسک پہننے کی تلقین کرنے والوں کے ماسک نہ پہننے کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ کیونکہ کسی کی اس طرح مدد کرتے ہوئے سخی بادشاہ اور اس کے حواریوں کے چہرے پر جو فخریہ تاثرات ابھرتے ہیں کہ جن سے صاف صاف ٹپک رہا ہوتا ہے کہ لے سائل تو بھی کیا یاد کرے گا، کس حاتم طائی سے پالا پڑا ہے۔ یہ تاثرات امداد سے بھی زیادہ اہم ہیں اور ماسک ان تاثرات کا قاتل ہے۔

یہ تصویر دیکھنے کے بعد میں امریکی صدر ٹرمپ، برطانوی وزیرِ اعطم بورس جانسن، جرمن چانسلر اینجلا مرکل، اطالوی وزیرِ اعظم گوئسپ کونٹے، ہسپانوی وزیرِ اعظم پیڈرو سانچیز، ایرانی صدر حسن روحانی، روسی صدر پوتن، چینی صدر شی جن پنگ، بھارتی وزیرِ اعظم مودی، انڈونیشا کے صدر جوکو ودودو، جنوبی کوریا کے صدر مون ژائے ان، جاپانی وزیرِ اعظم شنزو آبے، سری لنکا کے وزیرِ اعظم مہندرا راجا پکسے، بنگلہ دیشی وزیرِ اعظم حسینہ واجد، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان، امارات کے صدر خلیفہ بن زید النہیان، برازیل کے صدر گائر بولسنارو، جنوبی افریقہ کے صدر سرل راما پھوسا سمیت درجنوں ممالک کے حکمرانوں کی پچھلے دو تین ہفتے کی تصاویر چھان چکا ہوں جہاں کورونا نے پوری ریاست و سماج کو تلپٹ کر دیا ہے۔

ان تمام معزز حکمرانوں نے اپنی اپنی رعایا کے لیے اربوں ڈالر کی ہنگامی امداد کا بھی اعلان کیا ہے۔ مگر میری بدقسمتی کہ ان میں سے ایک حکمران کی بھی ایسی تصویر ہاتھ نہیں آ سکی جس میں وہ کسی غریب کو امداد کا ڈبہ تھماتے ہوئے سینہ تانے تصویر کھچوا رہے ہوں۔

چانچہ آج کے بعد میں ان تمام لوگوں سے معافی مانگتا ہوں جن کی تصاویر پر میں نے کوئی منفی تبصرہ کیا یا ان کے بارے میں دل میلا کیا۔ بھلے سندھ کے وہ رکنِ اسمبلی ہوں جو اپنے غریب ووٹروں کو کورونا سے بچانے کے لیے بیس روپے کے صابن کی بٹی تھماتے ہوئے ایسے گروپ فوٹو کھنچوا رہے ہیں گویا فیفا کی ٹرافی تھما رہے ہوں۔ یا پھر وہ کروڑ پتی سیٹھ صاحب جنھوں نے راشن کے تھیلوں پر اپنی تصویر ایسی نمایاں چھاپی ہے گویا پہلے وقتوں کے ہرن چھاپ تمباکو کے پیکٹ پر الحاج محمد یاسین مرحوم کا چہرہ زیتون کی دو شاخوں کے درمیان گڑا ہوا کرتا تھا۔

میں انتہائی معذرت خواہ ہوں ان تمام صاحبِ دل سخی مسلمانوں سے جو کسی غریب عورت کو ہزار کا نوٹ عنائیت کر رہے ہیں اور اس نوٹ کو درجنوں ہاتھ یوں تھامے ہوئے ہیں گویا صدقے کے بکرے پر یا سئید دھڑم دھکیل شاہ کی سالگرہ کے کیک کی چھری پر ہاتھ رکھے ہوں۔ درجنوں فخریہ آنکھوں کے بیچ پھنسی  وہ مسکین عورت کبھی خود کو دیکھ رہی ہے، کبھی ان حاتم طائی ہاتھوں کو اور کبھی ان ہاتھوں کے ہجوم میں پھنسے ہزار کے نوٹ کو۔

میں ان تمام معزز تاجروں کو پرلے درجے کا چھچورا سمجھنے پر انتہائی شرمندہ ہوں جنھوں نے ایک قصبے کے مرکزی بازار میں کورونا کی واردات سے بہت پہلے بڑا سا بینر لٹکایا تھا۔ اس پر سنہری رنگ میں لکھا تھا  ”  ہم تاجران ِ شاہی بازار ٹم ٹم پور اپنے ہر دلعزیز ساتھی حاجی محمد نواز صاحب کو نئی کرولا ایکس ایل آئی دو ہزار انیس خریدنے پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ بینر کے دائیں جانب نئی کرولا ایکس ایل آئی کی اصلی رنگین تصویر بھی چھاپی گئی تھی۔

مجھے یاد پڑتا ہے جب موجودہ حکومت نئی نئی برسرِاقتدار آئی تو اس نے اخباری اشتہارات کے واجب الادا پیسوں کی ادائیگی اس شرط سے نتھی کر دی تھی کہ جن سرکاری اشتہارات پر کسی وزیر یا وزیرِ اعلی کی تصویر تھی ایسے اشتہارات کی ادائیگی موجودہ حکومت اپنے خزانے سے کرنے کے بجائے سابق حکمرانوں اور عمل داروں کو بل بجھوائے گی جنھوں نے سرکاری منصوبوں کے اشتہارات باپ دادا کا مال سمجھتے ہوئے ذاتی تشہیر کے لیے استعمال کیے۔

اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ اب جو غریبوں میں کورونا مدد کے نام پر حکمرانوں کی تصاویر و حوالہ جات  سے لت پت تھیلے یا ڈبے فوٹو سیشن کرتے ہوئے بانٹے جا رہے ہیں کیا یہ سرکاری بجٹ سے بٹنے والی امداد ہے یا پھر حکمران اپنی جیبِ خاص سے یہ امداد لٹا رہے ہیں؟ اگر تو یہ جیبِ خاص کی سخاوت ہے پھر تو آپ تصویر چھوڑ اپنا مجسمہ بھی متاثرین کو تھیلے کے ساتھ نتھی کر کے دیں۔ لیکن اگر یہ سرکاری پیسہ المعروف ٹیکس دھندگان کا پیسہ المعروف ہمارا پیسہ ہے تو پھر یہی پیسہ ہمیں امداد کی شکل میں لوٹاتے ہوئے اپنی صورت تو مت دکھائیں۔

ہاں اگر مستحقین کو صرف یہ یاد دلانا مقصود ہے کہ یہ امداد کون دے رہا ہے تو آپ زیادہ سے زیادہ وفاقی یا صوبائی حکومتوں کا سبز سرکاری نشان تھیلوں اور ڈبوں پر چپکا کر یہ کارِ خیر انجام دے سکتے ہیں۔ تاکہ سب کو یقین ہو جائے کہ یہ امداد منگولیا نہیں بلکہ حکومتِ پاکستان دے رہی ہے۔

چلیے چھوڑئیے اس چھیچھا لیدر کو۔ اصلی ریاستِ مدینہ کے دو قصے سن لیجیے۔

حضرت فاطمہ بنتِ محمد جن کے ہاتھوں میں چکی پیس پیس کر گٹے پڑ گئے ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہمراہ اپنے والد سرورِ کائنات خاتم المرسلین کی خدمت میں حاضر ہوتی ہیں۔ یا رسول اللہ ممکن ہو تو کام کاج میں آسانی کی خاطر ایک غلام مرحمت فرما دیجے۔ وہ باپ جو ہمیشہ اپنی بیٹی کا اٹھ کر استقبال کرتا ہے۔ حضرتِ فاطمہ سے مخاطب ہوتے ہیں ” فاطمہ مجھے تمہاری ضرورت سے پہلے بدر کے یتیموں اور اصحابِ صفہ کی حاجت روائی کا خیال آتا ہے”۔۔۔

مسجدِ نبوی کے احاطے میں ایک چبوترے پر وہ صحابہ بیٹھتے تھے جن کا کوئی گھر بار نہ تھا۔ وہیں تعلیم حاصل کرتے، کھانا تناول کرتے اور آرام فرماتے۔ مجھے کسی بھی تاریخی کتاب کا کوئی ایک حوالہ درکار ہے جس میں ان صاحبانِ حیثیت کے نام درج ہوں جو اصحابِ صفہ کو کھانا، کپڑے اور گذارے کی دیگر اشیا فراہم کر رہے تھے یا ان کی مسلسل دیکھ بھال کر رہے تھے۔

تحریر: وسعت اللہ خان

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس

کرو یا مرو

ویسے تو انسان جاتی ہی بہت عجیب ہے مگر انسانوں میں بھی اگر قسم بندی کی جائے تو ہم جنوبی ایشیائی سب سے الگ ہیں۔

سو روپے کے ادھار پر قتل کر دیں گے، خاندانی و دینی غیرت کے مارے سر اتار دیں گے، ہمیشہ اپنے کے بجائے دوسرے کو مشورہ دیں گے، بات بے بات ریاستی نااہلی کو اپنے انفرادی و اجتماعی افعال کا ذمہ دار ٹھہرائیں گے۔

لیکن جب آزمائش کا وقت آئے گا تو عقل کے ایٹم بم کو کام میں لانے کے بجائے جذبات کے بھالے، تاویل کی تلوار، کج بحثی کے پستول، اندھے عقیدے کے نیزے، تعصب کی منجنیق اور افواہ کی بندوق سے ہر آفت اور مرض کا مقابلہ کرنے کو افضل سمجھیں گے۔

مثلاً باقی دنیا بشمول عالمِ اسلام پولیو کا مقابلہ ویکسین اور آگہی سے کر رہی ہے اور سو فیصد کامیاب ہے۔ مگر ہم پولیو کو جہالت کی توپ سے اڑانے پر کمربستہ ہیں۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔

جسے عید کی نماز کے سوا باجماعت نماز کا کوئی تجربہ نہیں، وہ حرم شریف میں نماز نہ ہونے پر سعودیوں سے بھی زیادہ رنجیدہ ہے۔

جس نے ہمیشہ ذخیرہ اندوزی کو حلال جانا، وہ اللہ تعالی سے ڈرنے کی تلقین کر رہا ہے۔ جس نے جہاد پر اپنا کوئی بچہ نہیں بھیجا وہ بتا رہا ہے کہ وبا عام میں مرنا شہادت ہے۔

جس کی ہٹی سے کوئی ہڑ کا مربہ دو نمبری کے شہبے میں خریدنا پسند نہ کرے اس نے کورونا کا دیسی علاج سوشل میڈیا پر بیچنا شروع کر دیا ہے۔ جو خود کو ہارٹ سپیشلسٹ کہہ رہا ہے وہ وائرالوجی میں گھس کے مشورے دے رہا ہے کہ ہر آدھے گھنٹے بعد ہیئر ڈرائیر سے ناک کے بال گرم کریں تاکہ وائرس اندر نہ گھسے۔

وزیرِ اعظم کا کام ہے کہ وہ اس جنگ میں قوم کی قیادت کریں مگر انھیں بھی امید ہے کہ کورونا گرم موسم شروع ہوتے ہی کچھار میں گھس جائے گا۔

گورنر پنجاب نہ صرف خود قائل ہیں بلکہ دوسروں کو بھی قائل کر رہے ہیں کہ پانی پیتے رہیں تاکہ وائرس حلق سے پھسل کر معدے میں پہنچ جائے جہاں تیزابی عناصر اس کا کام تمام کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔

سرحد پار بھی ایسے ہی تماشے ہو رہے ہیں۔ گاؤ موتر سے کورونا کا اجتماعی علاج کرنے والے خود بیمار پڑ گئے ہیں مگر اس کے فضائل بیان کرنے سے باز نہیں آ رہے۔ ایک ارب پتی سادھو نے آیورویدک جڑی بوٹیوں سے علاج تجویز کیا ہے کیونکہ اس سادھو کی اپنی آیورویدک دوا ساز کمپنی ہے۔

مطلب یہ ہے کہ صابن سے ہاتھ نہیں دھونا، سینیٹائزر اور ماسک کا استعمال نہیں کرنا، اجتماعات یا بھیڑ میں جانے سے نہیں ہٹنا اور گھر میں آرام سے نہیں بیٹھنا۔ ان کے علاوہ تمام کام کرنے ہیں۔

خود کو بھی دھوکے میں رکھنا ہے اور لاکھوں لوگوں کو بھی ورغلاتے رہنا ہے۔ اور جب یہی لاکھوں لوگ خدانخواستہ مکھیوں کی طرح مرنے لگیں تو یہی دھوکے باز کہیں گے کہ انسان بے بس ہے، جو بھگوان یا اللہ کو منظور۔

مگر قصور ان سب کا بھی نہیں۔ ہماری اپنی نفسیات کون سی مثالی ہے۔ یہ تو خیر کورونا ہے۔

میں نے تو بچشمِ خود 2010 کے سیلابِ عظیم میں ملاحظہ کیا ہے کہ انتظامیہ گاؤں والوں کے ہاتھ جوڑتی رہی کہ گھروں کو خالی کر کے کشتیوں میں بیٹھ جاؤ تاکہ تمھیں کیمپوں تک پہنچا سکیں۔ اگلے 24 گھنٹوں میں پانی تمھارے گاؤں کو ڈبو دے گا۔ مگر اکثریت نے گھر چھوڑنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہمارے پیچھے گھروں کی حفاظت کون کرے گا۔

اور جب 24 گھنٹوں بعد پانی سات، آٹھ فٹ تک آگیا تو گاؤں چھتوں پر چڑھ کے حکومت کو کوس رہا تھا کہ اس نے ہمیں اکیلا چھوڑ دیا۔

یہ محاورہ بھی صرف برصغیر میں ہی بولا جاتا ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ کمیٹیاں بٹھانے اور بحث کرنے کا وقت گزر گیا۔ آپ جتنے لوگوں سے مشورے لیں گے اتنے ہی کنفیوژ ہوتے چلے جائیں گے۔ لہذا ’اب یا کبھی نہیں‘ کا مرحلہ آن پہنچا ہے۔

یہ ہمارا گیلی پولی ہے۔ جب گیلی پولی پر مغربی افواج نے چاروں طرف سے ہلا بول دیا تو کمال اتاترک نے اپنے سپاہیوں سے کہا ’میں تمھیں لڑنے کا نہیں، مرنے کا حکم دیتا ہوں۔‘ اور پھر گیلی پولی جیت لیا گیا۔

اس وقت ایک ہی ماڈل کام کا ہے اور وہ ہے چینی ماڈل: کرو یا مرو۔

تحریر: وسعت اللہ خان

بشکریہ بی بی سی اردو

غریب کرونا ، امیر کرونا

اپنے محلے کے جنرل سٹور سے گھر کا سودا خریدتے ہوئے ایک صاحب کو دیکھا جو منرل واٹر کی پیٹیاں ذخیرہ کر رہے تھے لیکن مصر تھے کہ پاکستانی نیسلے نہیں چاہیے، وہ جو دبئی والا آتا ہے وہ چاہیے۔

جب جنرل سٹور والے نے بتایا کہ وہ دستیاب نہیں ہے تو وہ بھناتے ہوئے گاڑی کی چابی گھماتے ہوئے کسی بہتر سٹور کی جانب چل دیے۔

میرے محلے کے سٹور والی گلی میں ہی کراچی کا مشہور عوامی ہوٹل کیفے کلفٹن ہے۔ یہ اتنا عوامی ہے کہ عید کے دن بھی بند نہیں ہوتا۔ کراچی کی انتہائی کم ایسی جگہیں ہیں جہاں مزدور اور بابو ایک ساتھ بیٹھ کر چائے پیتے ہیں۔

یہاں پر صبح مفت ناشتے کا بھی انتظام ہوتا ہے۔ کئی سالوں سے دیکھ رہا ہوں کہ ایک پراٹھے اور چائے کے کپ کے لیے لگی لائن لمبی ہوتی جا رہی ہے۔ لوگ اپنے چھ بچوں کو بھی لاتے ہیں۔ ناشتے کا انتظار کرتے لوگوں کے حلیے سے پتا چلتا ہے کہ وہ محنت کش ہیں، بھکاری نہیں۔

ان میں وردیاں پہنے پرائیویٹ سکیورٹی گارڈز ہوتے ہیں، کبھی رکشہ چلانے والے اور ایک آدھ دفعہ تو میں نے پولیس والے کو بھی ایک ہاتھ میں بندوق اور دوسرے ہاتھ سے چائے پراٹھا پکڑتے دیکھا ہے جو کیفے کلفٹن کے ملازم کسی مخیر اور درد مند شہری کی ایما پر بانٹ رہے ہوتے ہیں۔

سندھ حکومت نے فیصلہ کیا اور اچھا فیصلہ کیا کہ سوائے سودا سلف کی دکانوں کے سب دھندے بند کیے جائیں تو پہلی دفعہ کیفے کلفٹن پر شٹر پڑے دیکھے اور ساتھ ہی یہ احساس ہوا کہ شہر میں ایک امیر کورونا ہے جو دبئی کے منرل واٹر کی تلاش میں ہے اور شہر میں ایک غریب کورونا ہے جو صبح ملنے والے مفت چائے پراٹھے سے محروم ہوگیا ہے۔

کراچی والے اپنے آپ کو بہت ہمت والے (resilient) سمجھتے ہیں۔ میں کہتا رہا ہوں کہ ہم ڈھیٹ لوگ ہیں۔ الطاف حسین کی سقے شاہی ہو، رینجرز کے پے در پے آپریشن ہوں، ملک کے دوسری آفت زدہ علاقوں سے آنے والے پناہ گزینوں کا سیلاب ہو یا تابڑ توڑ ہونے والے دہشت گرد حملے، ہم دو دن بعد ہی کپڑے جھاڑ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور نکڑ والے پان کے کھوکھے پر کھڑے ہو کر پان لگواتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ ’اور سناؤ، کیا حال ہے؟‘ صاحبِ حیثیت تو گھروں میں بند ہو کر اپنا منرل واٹر پیتے رہیں گے، لیکن مزدور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر رزق کی تلاش میں نکلنے پر مجبور ہوگا

ہم اس کو ڈھٹائی کہہ لیں، بہادری کہہ لیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر شہر میں سکت ہی نہیں ہے کہ وہ کسی خوف اور صدمے کی وجہ سے گھر میں بند ہو کر بیٹھ جائیں۔

شہر کی آدھی سے زیادہ آبادی دیہاڑی دار ہے۔ روز کنواں کھودتے ہیں، روز پانی پیتے ہیں۔ گھر میں چار پانچ دن سے زیادہ کا راشن نہیں ہوتا۔ جب الطاف حسین کے دبدبے میں پورا کراچی آدھے گھنٹے کے اندر اندر بند ہو جاتا تھا تو 48 گھنٹے کے بعد لوگ ’بھائی گیا بھاڑ میں‘ کہتے ہوئے آہستہ آہستہ اپنے دھندوں کے لیے نکل پڑتے تھے۔

لیکن اب وہ ان دھندوں کے لیے جائیں بھی تو کہاں؟ ہر غریب امیر سکول کے باہر ایک بھنی ہوئی مکئی بیچنے والا یا ٹافیوں کی چھابڑی والا۔ سکول بند تو دھندا بند۔

ہر چھوٹے بازار کے کونے پر ایک موچی جو بابوؤں کے جوتے پالش کر کے اور مزدوروں کی چپلیں گانٹھ کر کے حلال رزق بنانے والا، بازار بند تو اس کا روزگار بھی بند۔

ساحلِ سمندر پر تھرماس سے قہوہ بیچنے والے، کرارے پاپڑ والے، اونٹوں اور گھوڑوں پر سواری کرانے والے۔ ساحلِ سمندر بند تو گھر کا چولہا بھی بند۔ ہر چھوٹے بازار کے کونے پر ایک موچی جو بابوؤں کے جوتے پالش کر کے اور مزدوروں کی چپلیں گانٹھ کر کے حلال رزق بنانے والا، بازار بند تو اس کا روزگار بھی بند

سڑک کے کنارے ہتھوڑی، چھینی، ڈرل مشین، پینٹ برش لے کر آجر کا انتظار کرتے مزدور، وہ کھائیں یا کورونا سے بچیں؟

ٹریفک لائٹ پر غبارے، کھلونے بیچتے بچے اور 10 روپے کے عوض آپ کو حاجی صاحب کہنے والی بوڑھی عورت، شہر کے لاک ڈاؤن کے بعد یہ سب لوگ کہاں جائیں گے؟

سندھ حکومت کے مخالف بھی اور وہ لوگ بھی جو بھٹو کے نام کے ساتھ گالی دینا اپنا سیاسی فرض سمجھتے ہیں اس بات کے معترف ہیں کہ سندھ حکومت نے باقی صوبوں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی دکھائی ہے۔ سکول، کالج، بازار بند کر کے لوگوں کو اس وبا سے بچنے کے لیے تیار کیا ہے۔

اب کیا ہی اچھا ہو کہ شہر میں پھیلے رفاہی اداروں کے جال جیسے ایدھی، سیلانی، امن فاؤنڈیشن اور اس جیسے بہت سے دوسرے اداروں کے ساتھ میں کر ان محنت کشوں کے لیے راشن اور دوسری ضروریاتِ زندگی کا بندوبست کیا جائے ورنہ صاحبِ حیثیت تو گھروں میں بند ہو کر اپنا منرل واٹر پیتے رہیں گے، لیکن مزدور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر رزق کی تلاش میں نکلنے پر مجبور ہوگا۔

تحریر: محمد حنیف

بشکریہ بی بی سی اردو