غریب کرونا ، امیر کرونا

اپنے محلے کے جنرل سٹور سے گھر کا سودا خریدتے ہوئے ایک صاحب کو دیکھا جو منرل واٹر کی پیٹیاں ذخیرہ کر رہے تھے لیکن مصر تھے کہ پاکستانی نیسلے نہیں چاہیے، وہ جو دبئی والا آتا ہے وہ چاہیے۔

جب جنرل سٹور والے نے بتایا کہ وہ دستیاب نہیں ہے تو وہ بھناتے ہوئے گاڑی کی چابی گھماتے ہوئے کسی بہتر سٹور کی جانب چل دیے۔

میرے محلے کے سٹور والی گلی میں ہی کراچی کا مشہور عوامی ہوٹل کیفے کلفٹن ہے۔ یہ اتنا عوامی ہے کہ عید کے دن بھی بند نہیں ہوتا۔ کراچی کی انتہائی کم ایسی جگہیں ہیں جہاں مزدور اور بابو ایک ساتھ بیٹھ کر چائے پیتے ہیں۔

یہاں پر صبح مفت ناشتے کا بھی انتظام ہوتا ہے۔ کئی سالوں سے دیکھ رہا ہوں کہ ایک پراٹھے اور چائے کے کپ کے لیے لگی لائن لمبی ہوتی جا رہی ہے۔ لوگ اپنے چھ بچوں کو بھی لاتے ہیں۔ ناشتے کا انتظار کرتے لوگوں کے حلیے سے پتا چلتا ہے کہ وہ محنت کش ہیں، بھکاری نہیں۔

ان میں وردیاں پہنے پرائیویٹ سکیورٹی گارڈز ہوتے ہیں، کبھی رکشہ چلانے والے اور ایک آدھ دفعہ تو میں نے پولیس والے کو بھی ایک ہاتھ میں بندوق اور دوسرے ہاتھ سے چائے پراٹھا پکڑتے دیکھا ہے جو کیفے کلفٹن کے ملازم کسی مخیر اور درد مند شہری کی ایما پر بانٹ رہے ہوتے ہیں۔

سندھ حکومت نے فیصلہ کیا اور اچھا فیصلہ کیا کہ سوائے سودا سلف کی دکانوں کے سب دھندے بند کیے جائیں تو پہلی دفعہ کیفے کلفٹن پر شٹر پڑے دیکھے اور ساتھ ہی یہ احساس ہوا کہ شہر میں ایک امیر کورونا ہے جو دبئی کے منرل واٹر کی تلاش میں ہے اور شہر میں ایک غریب کورونا ہے جو صبح ملنے والے مفت چائے پراٹھے سے محروم ہوگیا ہے۔

کراچی والے اپنے آپ کو بہت ہمت والے (resilient) سمجھتے ہیں۔ میں کہتا رہا ہوں کہ ہم ڈھیٹ لوگ ہیں۔ الطاف حسین کی سقے شاہی ہو، رینجرز کے پے در پے آپریشن ہوں، ملک کے دوسری آفت زدہ علاقوں سے آنے والے پناہ گزینوں کا سیلاب ہو یا تابڑ توڑ ہونے والے دہشت گرد حملے، ہم دو دن بعد ہی کپڑے جھاڑ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور نکڑ والے پان کے کھوکھے پر کھڑے ہو کر پان لگواتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ ’اور سناؤ، کیا حال ہے؟‘ صاحبِ حیثیت تو گھروں میں بند ہو کر اپنا منرل واٹر پیتے رہیں گے، لیکن مزدور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر رزق کی تلاش میں نکلنے پر مجبور ہوگا

ہم اس کو ڈھٹائی کہہ لیں، بہادری کہہ لیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر شہر میں سکت ہی نہیں ہے کہ وہ کسی خوف اور صدمے کی وجہ سے گھر میں بند ہو کر بیٹھ جائیں۔

شہر کی آدھی سے زیادہ آبادی دیہاڑی دار ہے۔ روز کنواں کھودتے ہیں، روز پانی پیتے ہیں۔ گھر میں چار پانچ دن سے زیادہ کا راشن نہیں ہوتا۔ جب الطاف حسین کے دبدبے میں پورا کراچی آدھے گھنٹے کے اندر اندر بند ہو جاتا تھا تو 48 گھنٹے کے بعد لوگ ’بھائی گیا بھاڑ میں‘ کہتے ہوئے آہستہ آہستہ اپنے دھندوں کے لیے نکل پڑتے تھے۔

لیکن اب وہ ان دھندوں کے لیے جائیں بھی تو کہاں؟ ہر غریب امیر سکول کے باہر ایک بھنی ہوئی مکئی بیچنے والا یا ٹافیوں کی چھابڑی والا۔ سکول بند تو دھندا بند۔

ہر چھوٹے بازار کے کونے پر ایک موچی جو بابوؤں کے جوتے پالش کر کے اور مزدوروں کی چپلیں گانٹھ کر کے حلال رزق بنانے والا، بازار بند تو اس کا روزگار بھی بند۔

ساحلِ سمندر پر تھرماس سے قہوہ بیچنے والے، کرارے پاپڑ والے، اونٹوں اور گھوڑوں پر سواری کرانے والے۔ ساحلِ سمندر بند تو گھر کا چولہا بھی بند۔ ہر چھوٹے بازار کے کونے پر ایک موچی جو بابوؤں کے جوتے پالش کر کے اور مزدوروں کی چپلیں گانٹھ کر کے حلال رزق بنانے والا، بازار بند تو اس کا روزگار بھی بند

سڑک کے کنارے ہتھوڑی، چھینی، ڈرل مشین، پینٹ برش لے کر آجر کا انتظار کرتے مزدور، وہ کھائیں یا کورونا سے بچیں؟

ٹریفک لائٹ پر غبارے، کھلونے بیچتے بچے اور 10 روپے کے عوض آپ کو حاجی صاحب کہنے والی بوڑھی عورت، شہر کے لاک ڈاؤن کے بعد یہ سب لوگ کہاں جائیں گے؟

سندھ حکومت کے مخالف بھی اور وہ لوگ بھی جو بھٹو کے نام کے ساتھ گالی دینا اپنا سیاسی فرض سمجھتے ہیں اس بات کے معترف ہیں کہ سندھ حکومت نے باقی صوبوں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی دکھائی ہے۔ سکول، کالج، بازار بند کر کے لوگوں کو اس وبا سے بچنے کے لیے تیار کیا ہے۔

اب کیا ہی اچھا ہو کہ شہر میں پھیلے رفاہی اداروں کے جال جیسے ایدھی، سیلانی، امن فاؤنڈیشن اور اس جیسے بہت سے دوسرے اداروں کے ساتھ میں کر ان محنت کشوں کے لیے راشن اور دوسری ضروریاتِ زندگی کا بندوبست کیا جائے ورنہ صاحبِ حیثیت تو گھروں میں بند ہو کر اپنا منرل واٹر پیتے رہیں گے، لیکن مزدور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر رزق کی تلاش میں نکلنے پر مجبور ہوگا۔

تحریر: محمد حنیف

بشکریہ بی بی سی اردو

بچی چپ نہیں ہو رہی۔۔۔

راولپنڈی میں ایک علاقہ ہے رتہ امرال‘ اس علاقے کے ایک صاحب چھوٹے سے سرکاری ملازم ہیں‘ دو سال قبل ان کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا‘ بچے چھوٹے تھے‘ صاحب نے نئی شادی کر لی مگر اہلیہ سوتیلے بچوں کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی تھی چناں چہ وہ ناراض ہو کر میکے چلی گئی‘ یہ صاحب صبح نوکری پر جاتے تھے اور رات کو لیٹ واپس آتے تھے‘بچے گھر میں اکیلے ہوتے تھے‘ بیٹی کی عمر 14 سال تھی‘ یہ بچی اپنے بھائی پالتی تھی‘ جون 2019ءمیں ان کا ایک ہمسایہ اسد علی زبردستی گھر میں داخل ہوا اور 14 سال کی بچی کا ریپ کر دیا۔

بچی خوف کی وجہ سے خاموش رہی‘ ہمسائے نے اس کے بعد ریپ کو روٹین بنا لیا‘ یہ والد

کی غیر موجودگی میں ان کے گھر داخل ہو جاتا تھا‘ یہ سلسلہ چند دن چلا‘ یہ اس کے بعد اپنے ایک دوست بہادر علی کو بھی ساتھ لے گیا‘ بہادر علی نے بھی بچی کے ساتھ زیادتی شروع کر دی‘ یہ دونوں بچی کو قتل کی دھمکی بھی دیتے تھے اور محلے میں بدنام کرنے کی بھی لہٰذا بچی ڈر کر خاموش ہو جاتی تھی‘ یہ دو لوگ چند دنوں میں تین اور پھر چار ہو گئے‘عابد اور یحییٰ بھی ان کے ساتھ مل گئے اور یہ چاروں بچی کو مسلسل ریپ کرتے رہے‘ دسمبر 2019ءمیں بچی کے پیٹ میں خوف ناک درد اٹھا‘ والد بیٹی کو ڈاکٹر کے پاس لے گیا‘ پتا چلا بچی چھ ماہ کی حاملہ ہے‘ والد نے ابارشن کی کوشش کی لیکن ابارشن اب ممکن نہیں تھا‘ والد نے پولیس کو درخواست دے دی‘ ملزمان گرفتار ہوگئے‘ اعتراف جرم بھی ہو گیا اور یہ جیل بھی بھجوا دیے گئے‘ یہ کہانی کا ایک پہلو تھا‘ اگلا ہول ناک پہلو اس کے بعد آتا ہے‘ 14 سال کی اس بچی نے چند دن قبل ایک بچی کو جنم دے دیا‘ یہ بچی اب اپنی چودہ سال کی ماں کی گود میں ہے اور یہ روز چیخ کر اس واہیات سماج سے صرف ایک سوال پوچھ رہی ہے‘ یہ پوچھ رہی ہے میں کون ہوں اور اس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں میرا مستقبل کیا ہے؟ کیا ہمارے پاس اس سوال کا کوئی جواب ہے؟۔ ہمیں بہرحال یہ ماننا ہو گا ہم درندوں کے سماج میں رہ رہے ہیں۔

ہمارے دائیں بائیں جانو رہتے ہیں اور یہ جانور خون سونگھتے پھرتے رہتے ہیں لیکن ٹھہریے جانور بھی ہم سے بہتر ہیں‘ یہ بھی اس وقت تک اپنی کسی مادہ کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتے جب تک وہ ”ہیٹ“ پر نہیں آتی جب کہ ہم تو چھوٹی معصوم بچیوں کو بھی نہیں بخشتے‘ ہم انہیں ہوس کا نشانہ بھی بنا دیتے ہیں‘ قتل بھی کردیتے ہیں‘ چودہ سال کی عمر میں ماں بھی بنا دیتے ہیں اور پھر اس کی گود میں پڑی اپنی اولاد کو بھی نہیں پہچانتے ‘ آپ نے کبھی سوچا اللہ تعالیٰ نے جانوروں کے لیے کوئی کتاب‘ کوئی نبی کیوں نہیں اتارا تھا؟

اس لیے کہ جانور اپنے اصولوں‘ اپنے ضابطوں کے پکے ہوتے ہیں‘ شیر اس وقت تک کسی دوسرے جانور پر حملہ نہیں کرتا جب تک وہ بھوک سے بے حال نہیں ہو جاتا‘ درندے بھی بچوں پر حملے نہیں کرتے‘ شیرنی بھیڑ کا بچہ پال لے گی اور بھیڑ شیر کے بچے کو دودھ پلا دے گی لیکن یہ ہم انسان ہیں جن کا کوئی ضابطہ‘ کوئی اصول اور کوئی اخلاقیات نہیں ہوتی لہٰذا اللہ تعالیٰ کو ہمیں یہ یاد کرانے کے لیے ”تم انسان ہو‘ تم اشرف المخلوقات ہو“ ایک لاکھ 24 ہزار نبی اور چار کتابیں اتارنا پڑیں مگر آپ ہمارا کمال دیکھیے۔

ہم اس کے باوجود انسان نہیں بن سکے‘ ہم نے اللہ کے گھر میں بھی شیطانیت نہیں چھوڑی‘ ہم نے اللہ کا نام لے کر انسانوں کے سر اتارے‘ عورتوں کو لونڈی بنایا اور بچوں کو غلام بناکر بازار میں فروخت کیا‘ آپ المیہ ملاحظہ کیجیے قدرت نے آج تک کسی جانور پر عذاب نہیں اتارا لیکن ہم انسان بار بار اللہ کے عذاب کا نشانہ بھی بنے اور ہم نے قدرت کو شرمندہ بھی کیا‘ ہم انسان تو اپنی توبہ پر بھی زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتے چناں چہ ہم جانوروں سے بھی بدتر ہیں‘ میں 14سال کی اس ماں کی طرف واپس آتا ہوں۔

مجھے چند دن قبل امریکا کی ایک عدالت اور ایک جج کا فیصلہ پڑھنے کا اتفاق ہوا‘ جج کی عدالت میں ایک چور بچہ پیش کیا گیا تھا‘ بچے نے کسی سٹور سے کھانے پینے کا سامان چوری کیا تھا‘ سٹور کے مالک نے اسے پکڑ کر مارا اور پولیس کے حوالے کر دیا ‘ پولیس بچے کو لے کر عدالت میں پیش ہو گئی‘ جج نے بچے سے پوچھا ”کیا تم نے چوری کی“ بچے نے جواب دیا ”جی میں نے کی“ جج نے پوچھا ”کیوں؟“ بچے نے جواب دیا ”میں تین دن سے بھوکا تھا‘ بھوک نے مجھے خوراک چرانے پر مجبور کر دیا“۔

جج نے پوچھا ”کیا تمہارا والد تمہارے کھانے پینے کا بندوبست نہیں کرتا“ ۔بچے نے جواب دیا ” میرا والد نہیں ہے“ جج نے پوچھا ”اور ماں“ بچے نے جواب دیا ”وہ معذور ہے اور وہ مجھ سے زیادہ بھوکی تھی‘ میں نے اس کے لیے بھی سٹور سے خوراک چوری کی تھی“ جج نے پوچھا ”تم نے ہمسایوں اورسوشل سیکورٹی سے رابطہ کیوں نہیں کیا؟“ بچے نے جواب دیا ”میں نے ہمسایوں سے رابطہ کیا تھا لیکن کسی نے میری بات نہیں سنی تھی جب کہ سوشل سیکورٹی کے دفتر چھٹیوں کی وجہ سے بند تھے“ ۔

جج نے پوچھا ”تم نے سٹور کے مالک کو صورت حال بتائی تھی“ بچے نے کہا ”میں خوراک مانگنے کے لیے بار بار اس کے پاس جاتا تھا لیکن یہ مجھے دکان سے باہر نکال دیتا تھا“ یہ سن کر جج کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اس نے کمال فیصلہ لکھا‘ اس نے لکھا ”میں عدالت میں موجود اپنے سمیت تمام لوگوں کو مجرم ڈکلیئر کرتا ہوں‘ ہم سب بچے کو فوری طور پر پچاس پچاس ڈالر فی کس جرمانہ ادا کریں گے‘ میں بچے کے تمام ہمسایوں کو بھی مجرم ڈکلیئر کرتا ہوں۔

یہ اگلے دس سال تک روز اس کے دروازے پر دستک دیں گے اور ماں بیٹے سے پوچھیں گے آپ کو کسی چیز کی ضرورت تو نہیں اور یہ جو کہیں گے ہمسائے انہیں وہ فراہم کریں گے‘ سٹور کا مالک بچے سے تحریری معافی بھی مانگے گا اور اسے فوری طور پر ہزار ڈالر بھی ادا کرے گا اور آخری آرڈر سوشل سیکورٹی کے دفتر چھٹیوں کے دن بھی کھلے رہیں گے اور اگر کوئی بچہ ان سے رابطہ کرے گا تو یہ دس منٹ میں اس کے گھر پہنچیں گے۔آپ انصاف کا لیول دیکھیے لیکن ٹھہریے یہ کافر معاشرے کاانصاف اور جہنمی لوگوں کا جج تھا۔

ہم اور ہمارے جج اہل ایمان ہیں اور ہمارا معاشرہ جنتی لوگوں کا معاشرہ ہے لہٰذا ہمیں کافر جج کی طرف دیکھنے کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں‘ہمیں 14سال کی ماں اور اس کی معصوم اور بے گناہ بچی کے لیے ہرگز ہرگز سوچنے کی کوئی ضرورت نہیں چناں چہ14 سال کی یہ ماں اور اس کی یہ بچی اہل ایمان جنتی مومنین سے کوئی سوال‘ کوئی مطالبہ نہیں کر رہی‘ یہ صرف اور صرف کسی ایسے کافر جج کا انتظار کر رہی ہے جو چاروں مجرموں اور بچی کا ڈی این اے ٹیسٹ کرائے۔

یہ بچی جس کا نطفہ ثابت ہو عدالت اس کو اس کا باپ ڈکلیئر کرے اور یہ حکم جاری کرے 14 سال کی ماں جس دن اٹھارہ سال کی ہو گی اسے اس دن عدالت میں لا کر نومولود بچی کے ”والد“ کے ساتھ اس کا نکاح کردیا جائے گا اور یہ باقی زندگی اسے طلاق نہیں دے سکے گا‘ یہ جس دن اسے طلاق دینے کی کوشش کرے گا اس دن اسے عمر قید کے لیے جیل میں ڈال دیا جائے گا اور عدالت اس کے بعد باقی تینوں مجرموں کو سزا سنائے‘ یہ تینوں مرنے تک 14 سال کی اس بچی اور اس کی بچی کو ہر ماہ لاکھ لاکھ روپے ادا کریں گے۔

یہ لوگ یہ لاکھ روپے مانگ کر لائیں‘ کام کر کے لائیں‘ محنت مزدوری کریں یا پھر اپنے گردے بیچیں لیکن یہ ہر صورت یہ رقم ادا کریں گے‘ یہ جس دن یہ رقم ادا نہیں کریں گے یہ عمر قید میں ڈال دیے جائیں گے یا پھر انہیں ”ریپ“ کے جرم میں پھانسی چڑھا دیا جائے گا اور جج اس کے بعد چودہ سال کی ماں کے ہمسایوں کو بھی بلا لے اور ان سے پوچھے ”بچی کا والد جب دفتر چلا جاتا تھا تو کیا تم اندھے اور بہرے تھے تمہیں پتا نہیں چلا کون‘ کون بچی کے گھر داخل ہوتا تھا اور اس بے چاری کے ساتھ کیا ہوتا تھا؟

جج ان ہمسایوں کو بھی بھاری جرمانہ کرے تا کہ آئندہ کوئی ہمسایہ اپنی آنکھیں بند نہ رکھ سکے‘ لوگ خالی گھروں اور بے ماں کی بچیوں کی حفاظت کر یں لیکن مجھے یقین ہے یہ اس ملک میں نہیں ہو سکے گا‘ ہم اہل ایمان ہیں اور ہم اہل ایمان ایسے فیصلے کیسے کر سکتے ہیں؟ یہ کافر جج ہیں جو عدالت میں موجود لوگوں کو بھی جرمانہ کر دیتے ہیں‘ ہمارے ایمان دار ملک اور ہماری اخلاقیات میں چودہ سال کی اس ماں اور دو ہفتوں کی اس بچی کے لیے صرف ایک ہی انصاف ہے اور وہ انصاف ہے موت۔

یہ دونوں بے چاریاں مرنے کے سوا کچھ نہیں کر سکیں گی اور ان کی موت کے بعد عدم پیروی اور ثبوتوں کی غیرموجودگی کے باعث مجرم بھی باعزت رہا کر دیے جائیں گے اور یوں یہ باب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گا۔میں یہ حقیقت جانتا ہوں لیکن دو ہفتوں کی بچی یہ سچ نہیں جانتی لہٰذایہ روز چیخ کر کسی کافر جج کو بلا رہی ہے‘ یہ روز کسی کافر کو آواز دے رہی ہے‘ یہ چپ نہیں کر رہی۔

جاوید چوہدری

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس

پاکستان زندہ باد

لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہندوستان کا آخری وائسرائے تھا‘ یہ مارچ 1947میں آیا اور جون 1948تک ہندوستان میں رہا‘یہ بادشاہ جارج ششم کا کزن تھا‘ وائسرائے ہندوستان روانہ ہونے سے پہلے سر ونسٹن چرچل سے ملاقات کے لیے گیا‘ چرچل دانش ور بھی تھا‘ سیاست دان بھی اور دوسری جنگ عظیم کا ہیرو بھی‘ چرچل نے لارڈ کو مشورہ دیا‘ تم ہندوستان جا کر تمام لیڈروں سے ملاقات کرو لیکن مہاتما گاندھی سے بچ کر رہنا‘ لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے حیرت سے پوچھا ’’کیوں؟‘‘ چرچل نے جواب دیا ’’قدرت نے اسے قائل کرنے‘ دوسروں کو اپنے ساتھ ملانے کی بے تحاشا قوت دے رکھی ہے‘ مجھے خطرہ ہے تم اس سے ملو گے تو تم اس کے قائل ہو جاؤ گے‘‘ لارڈ ماؤنٹ بیٹن خود بھی مقناطیسی شخصیت کا مالک تھا۔

وہ مشکل سے مشکل لوگوں کو قائل بھی کر لیتا تھاچناں چہ اس نے قہقہہ لگایا اور ہندوستان آ گیا‘ وہ ہندوستان آیا‘ہندوستانی لیڈروں سے ملا اور دو لیڈروں کی فراست اور سادگی نے اسے قائل کر لیا‘ پہلے لیڈر قائداعظم محمد علی جناح تھے اور دوسرے مہاتما گاندھی‘ وہ کہتا تھا قائداعظم کے دلائل اور ذہانت کا کوئی مقابلہ نہیں جب کہ مہاتما گاندھی کی سادگی اور موقف کی شفافیت دونوں لاجواب ہیں‘ وہ کہتا تھا یہ دونوں لیڈر ہندوستان میں امن چاہتے ہیں‘ یہ دونوں کشت وخون‘ جنگ وجدل اور مذہب اور کلچر کی بنیاد پر ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کے خلاف ہیں‘ دونوں کا مقصد ایک ہے لیکن طریقہ کار مختلف ہے‘ قائداعظم محمد علی جناح کا خیال ہے مسلمانوں کو پاکستان اور ہندوؤں کو بھارت دو ملکوں میں رکھ کر ہی امن قائم ہو سکتا ہے۔

ہندو اور مسلمان ایک دوسرے سے مختلف ہیں‘ یہ مرنے تک لڑتے رہیں گے لہٰذا دونوں کو الگ الگ سرحدوں میں رکھ دیا جائے جب کہ گاندھی کا خیال ہے ہندوستان تقسیم نہیں ہونا چاہیے‘ ہم ایک ایسا آئین اور سسٹم بنا لیتے ہیں جس میں ہندو‘ ہندو اور مسلمان مسلمان رہ کر زندگی گزار سکیں‘ یہ دونوں ایک دوسرے کے عقائد پر اثرانداز ہوئے بغیر اکٹھے رہ سکیں‘ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا خیال تھا یہ دونوںسیکولر لیڈر ہیں‘ قائداعظم ایک ایسا پاکستان بنانا چاہتے ہیں جس میں مسلمانوں کی اکثریت ہو لیکن اقلیتوں کو مکمل حقوق حاصل ہوں‘ دوسری طرف گاندھی کا خیال ہے ہمارا انڈیا مکمل سیکولر ہو گا‘ اس میں کوئی شخص مذہب کی بنیاد پر کسی شخص پر انگلی نہیں اٹھا سکے گا‘ انڈیا کا ہر شہری صرف انڈین ہو گا‘ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا کہنا تھا میں نے دونوں کی رائے کا احترام کیا‘ قائداعظم کو مسلمانوں کا ملک دے دیا اور گاندھی کو ہندوؤں کا انڈیا ‘ اقلیتیں دونوں کے پاس ہیں‘ پاکستان میں بھی ہندو‘ سکھ‘ عیسائی اور پارسی ہیں اور انڈیا میں بھی مسلمان‘ سکھ‘ عیسائی‘ پارسی اور بودھ ہیں‘ اب قائداعظم کا پاکستان جیتتا ہے یا پھر گاندھی کا یہ فیصلہ وقت کرے گا۔

لارڈ ماؤنٹ بیٹن ہندوستان تقسیم کر کے برطانیہ چلا گیا لیکن انڈیا اور پاکستان کا نظریہ وقت کی لہروں پر آگے بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ آج 73برس ہو چکے ہیں‘ ان 73برسوں نے چند حقائق ثابت کر دیے‘ پہلی حقیقت پاکستان کی میچورٹی ہے‘ یہ درست ہم اقلیتوں کو وہ حقوق نہیں دے سکے جو قائداعظم محمد علی جناح پاکستان کے ہندوؤں‘ سکھوں‘ عیسائیوں اور پارسیوں کو دینا چاہتے تھے‘ یہ آج بھی خود کو پاکستان میں اجنبی محسوس کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ حقیقت ہے جتنا عدم تحفظ پاکستان کی سرحدوں کی دوسری طرف ہے ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے‘ آپ بھارت میں دنگوں اور فسادات کی تاریخ دیکھ لیں۔

آپ کو گلیوں میں ناچتی وحشت قے پر مجبور کر دے گی‘1992میں بابری مسجد شہید کر دی گئی‘ ایک مسجد نے کسی کا کیا بگاڑا تھا لیکن انتہا پسندوں نے گنبد پر چڑھ کر مسجد شہید کر دی‘ اس سانحے کو آج 28برس ہو چکے ہیں لیکن نفرت کی آگ نہیں بجھی‘ داؤد ابراہیم ہو‘ چھوٹا شکیل ہو یا پھر یعقوب میمن جیسے مسلمان گینگسٹر ہوں یہ سب بابری مسجد اور انتہا پسندوں کی نفرت کا جواب ہیں‘ نریندر مودی نے 2002 میں گجرات میں کیا کیا ؟ دو ہزارمسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا‘ گھر‘ دکانیں اور گاڑیاں جلا دیں اور مسلمان خواتین کو گلیوں میں سرعام ریپ کیا گیا‘ کشمیر کی داستان تو ہے ہی فرعونیت کی داستان‘ یہ خطہ 73برسوں سے سلگ رہا ہے۔

اس میں موت بوئی اور موت کاٹی جا رہی ہے‘ کشمیر میں کرفیو کو 215دن ہو چکے ہیں‘ اسپتال‘ اسکول اور مارکیٹیں بھی بند ہیں اور انٹرنیٹ اور فون سروس بھی‘ چھ ہزار نوجوان گھروں سے غائب ہیں اور آج دہلی میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھی پوری دنیا کے سامنے ہے‘ 8دنوں میں 40مسلمان شہید اور 200زخمی ہو چکے ہیں‘ لوگوں کے گھر‘ دکانیں اور گاڑیاں تک جلا دی گئیں اور پولیس تماشا دیکھتی رہی‘ بھارتی میڈیا اپنے منہ سے بول رہا ہے پولیس اور فوج نے کھل کر بلوائیوں کا ساتھ دیا‘ یہ مسلمانوں کو پکڑ کر انتہا پسندوں کے حوالے کر دیتے تھے اور وہ انھیں ڈنڈوں‘ راڈز اور پتھروں سے کچل دیتے تھے۔

خواتین کو ریپ بھی کیا گیا اور بچوں کو گاڑیوں تلے بھی روند دیا گیا‘ یہ ظلم صرف مسلمانوں تک محدود رہتا تو شاید گاندھی کے سیکولرازم کی عزت بچ جاتی لیکن 1984 میں سکھوں کے گولڈن ٹیمپل کے ساتھ کیاہوا؟ اندرا گاندھی کے حکم پر فوج گولڈن ٹیپمل میں داخل ہوئی اورتین ہزار زائرین کو بھون کر رکھ دیا‘ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد دہلی میں سکھوں کے ساتھ دوبارہ کیا سلوک ہوا؟ سیکڑوںسکھ خواتین ریپ ہوئیں اور اربوں روپے کی پراپرٹیز جلا کر راکھ کر دی گئیں‘بھارت میںعیسائیوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ بھارت عیسائیوں پر حملوں میں10 بدترین ممالک میں شامل ہے‘ 2018 میں مسیحی برادری پر 12000 حملے ہوئے‘درجنوں چرچ بھی جلادیے گئے اور سیکڑوںعیسائی قتل بھی کر دیے گئے‘ بھارت میں 1948 میں 30ہزاریہودی تھے‘ آج صرف پانچ ہزار ہیں‘ باقی بھارت چھوڑ کر جا چکے ہیں‘ بودھوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ آپ کسی دن یہ ڈیٹا بھی نکال کر دیکھ لیں اور آپ انڈیا میں 35کروڑ دلتوں کے ساتھ سلوک بھی دیکھ لیجیے۔

یہ لوگ آج بھی انسانوں کے برابر حقوق حاصل نہیں کر سکے‘ یہ آج 21 ویں صدی میں بھی جانوروں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں‘ ہم پاکستانی بھی نفرت سے بھرے ہوئے ہیں لیکن نفرت‘ شدت‘ تعصب اور جانب داری نے انسانیت کی جتنی دیواریں بھارت میں پھلانگی ہیں اور لوگ عقائد اور نسلوں کی جتنی سزا وہاں بھگت رہے ہیں ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے‘ یہ درست ہے بھارت نے پچھلے 30 برسوں میں معاشی ترقی کی‘ آج وہاں 138ارب پتی ہیں‘ یہ دنیا کی پانچویں بڑی معاشی طاقت بھی ہے لیکن یہ سماجی‘ انسانی اور مذہبی سطح پر انسانیت سے جتنا نیچے گیا ہم وہ سوچ بھی نہیں سکتے‘ مسلمان‘ سکھ اور دلت آج بھی کسی برہمن کے گلاس میں پانی اور پلیٹ میں کھانا نہیں کھا سکتے۔

یہ ان کے سائے پر بھی پاؤں نہیں رکھ سکتے چناں چہ ہم کہہ سکتے ہیں بھارت جس تیزی سے معاشی ترقی کر رہا ہے یہ اس سے ہزار گنا تیزی سے شرف انسانیت سے نیچے جا رہا ہے اور یہ تیزی ثابت کر رہی ہے یہ اب زیادہ دنوں تک قائم نہیں رہ سکے گا۔مجھے آج قائداعظم محمد علی جناح کے الفاظ بار بار یاد آرہے ہیں‘ قائد نے کشمیری رہنماؤںسے کہا تھا‘ تم نے اگر پاکستان سے الحاق نہ کیا تو تمہاری نسلیں پچھتائیں گی‘ آج ہندوستان میں موجود ہر اقلیتی خاندان کی نسلیں پچھتا رہی ہیں۔

مجھے کل دہلی کے ایک مسلمان نے فون کر کے کہا ’’بھائی صاحب آپ لوگ یہاں سے نکل گئے‘ آپ پر اللہ نے بڑا کرم کیا‘ ہم لوگ جو یہاں رہ گئے وہ اب جان بچانے کے لیے ماتھے پر تلک لگاتے ہیں‘ اپنے ناموں کے ساتھ رام لکھتے ہیں اور اپنے بچوں کے ختنے نہیں کرتے‘‘ میں سکتے میں آ گیا‘ وہ بولے ’’جناب ہم اپنے بچوں کو بچپن میں تربیت دیتے ہیں‘ وہ باہر کسی جگہ اللہ اور اس کے رسولؐ کا نام نہ لیں‘ ٹھڈا لگ جائے تو زبان سے ہائے رام اور دل میں یا اللہ کہیں لیکن ہم اس منافقت کے باوجود بھی یہاں محفوظ نہیں ہیں‘‘ اس کا کہنا تھا ’’پاکستان کے ہر شخص کو میرا پیغام دے دیں‘ اسے کہیں دہلی کا محمد خالد کہہ رہا ہے تم ایک بار دہلی آ کر دیکھ لو‘ تم مان جاؤ گے‘ پاکستان کتنی بڑی نعمت‘ اللہ کا کتنا بڑا انعام ہے لہٰذا اس کی قدر کرو‘ اللہ کا شکر ادا کرو‘ تم کم از کم اپنے بچوں کے کانوں میں اذان تو دے لیتے ہو‘ تم ان کے ختنے تو کر رہے ہو‘ ہم تو جان بچانے کے لیے ان سے بھی تائب ہو رہے ہیں‘ ‘میں کانپ گیا‘ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اٹھ کر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا۔

جاوید چوہدری

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس

اپنی لڑائی کی تے پرائی کی!

وزیرِاعظم عمران خان نے یومِ شہدا و دفاعِ پاکستان کے موقع پر جی ایچ کیو کی مرکزی تقریب سے خطاب کے دوران ایک وعدہ یہ بھی کیا کہ ” پاکستان آیندہ کسی اور کی جنگ میں شرکت نہیں کرے گا‘‘۔

اس پر مجھے ماسی مٹھن یاد آ گئی۔ جن کا ماشا اللہ ساتواں بچہ ہونے لگا تو دردِ زہ کے دوران لیبر روم سے آواز آ رہی تھی ”اب کے میں کبھی کولے نہ لگوں‘‘۔ یعنی اب میں کبھی ( اس کے ) پاس نہ پھٹکوں گی۔ اور اگلے برس پھر آٹھواں بچہ ایک بار پھر ماسی مٹھن کے اسی فریادی عہد کے ساتھ دنیا میں تشریف لے آیا۔

خان صاحب نے بھی شاید معصومیت میں کہہ دیا کہ پاکستان آیندہ کسی اور کی جنگ میں شرکت نہیں کرے گا۔ خان صاحب بھی وقت کے ساتھ ساتھ جان جائیں گے کہ سیاست و سفارت کاری کے معاملے میں ہر جواب اوپن رکھا جاتا ہے۔ قطعیت کے ساتھ کوئی ایسا وعدہ نہیں کرنا چاہیے جسے وقت پڑنے پر نبھانا مشکل ہو جائے۔ کل کس نے دیکھا اور خان صاحب کے بعد آنے والے کا کیا پتہ اور خود خان صاحب کا بھی کیا پتہ کہ کل کس مجبوری میں کون سا وعدہ توڑ کے یو ٹرن لینا پڑ جائے۔ اور اس بارے میں خان صاحب سے زیادہ کون جانتا ہے کہ یو ٹرن لینا کس قدر تکلیف دہ عمل ہے۔

” کوئی بھی جنگ شروع ہونے تک فیصلہ سازوں کے قابو میں رہتی ہے۔ شروع ہو جائے تو فیصلہ ساز جنگ کے قابو میں ہوتے ہیں ‘‘۔ اگر اس ضرب المثل کی عملی تعبیر دیکھنی ہو تو افغان جنگ کے پاکستان کے ساتھ رشتے میں دیکھ لو۔ پاکستان کی عمر تہتر برس ہے اور افغان جنگ کی عمر چالیس برس۔ گویا پاکستان کی ساٹھ فیصد زندگی افغان لڑائی اور اس کے اثرات تلے گزر گئی اور گزر رہی ہے۔

مگر ہم بھی کتنے سادے ہیں کہ انیس سو اڑتالیس انچاس کی چھ ماہ کی جنگِ کشمیر، سترہ دن کی پینسٹھ کی جنگ، ڈیڑھ ماہ کی اکہتر کی جنگ اور چار ماہ کے کرگل ایڈونچر کو تو بھرپور جنگیں سمجھتے ہیں مگر چالیس برس سے اپنی ہی زمین پر لڑی جانے والی افغان لڑائی کو کسی کھاتے میں نہیں ڈالتے۔ بلکہ اسے ہم کوئی جنگ ہی نہیں سمجھتے۔ حالانکہ جتنی اقتصادی، سماجی، جانی و مالی تباہی و عسکری نقصان پاکستان کو افغان جنگ نے پہنچایا وہ ان چاروں جنگوں سے ہزار گنا زیادہ ہے جنھیں ہم تاریخی اعتبار سے سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔

پچھلے چالیس برس سے ہم جس جنگ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ ہم پر امریکا اور سعودی عرب وغیرہ نے نہیں تھوپی بلکہ ضیا الحق نے آگے بڑھ کر خریدی اور پھر باقی دنیا نے اس جنگ کو پاکستان پر بطور بار برداری لاد دیا۔ ہم نے دنیا کی پہلی آؤٹ سورس جنگ خریدی اور پھر آگے آؤٹ سورس کرنی شروع کر دی اور انھوں نے مزید آگے کرائے پر چلانا شروع کر دی۔ اب تو خیر سے یہ ایسی اربوں کھربوں کی صنعت بن چکی ہے جس پر لاکھوں لوگوں کا تکیہ ہے۔

 

یہ پہلی جنگ تھی جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صرف جنگ نہ رہی بلکہ اسے طرح طرح سے پیکیج کر کے مارکیٹنگ کی گئی۔ جس طرح بکرے کی ران، پٹھ، گردن، سری پائے، کلیجی گردے، اوجھڑی اور کھال الگ الگ بیچے جاتے ہیں۔ اسی طرح مسلسل جاری افغان جنگ کے پیٹ سے منشیات کی ایک پوری ایگرو بیسڈ انڈسٹری، آڑھتی اور فروخت کرنے والوں کو ملا کر ڈرگ ایمپائر وجود میں آئی۔ اسی ایمپائر کے چچیروں نے اسلحے کا کام بھی شروع کر دیا اور پھر اس ایمپائر نے جو کالا دھن پیدا کیا وہ مختلف اداروں اور سیاست و معیشت میں بٹ بٹا کر جذب ہوتا چلا گیا۔

انتہا پسندی کو آکسیجن اسی سرمائے سے ملی اور آج انتہا پسندی اپنی معیشت میں خود کفیل ہے۔ اس بٹ بٹائی کے نتیجے میں ایک نئی پولٹیکو اکنامک کلاس وجود میں آئی جس نے جنگ اور اس سے پیدا ہونے والے بزنس کو ایک آرٹ فارم کی شکل دے دی۔ اور ہمیں نئی اصطلاحات، نئے امکانات، نئے مستقبل کے ڈزنی لینڈ کی طرف لگا دیا تاکہ پاکستان کو چالیس برس سے درپیش سب سے بڑی اور مسلسل جنگ کو ٹکڑوں ٹکڑوں میں دیکھنے کے بجائے کوئی باؤلا اس کا ایسا میورل نہ بنا لے جس میں ہر واقعہ، ہر کردار اور ہر مفاد ایک دوسرے سے جڑا ہوا نظر آجائے۔ میورل سوالات کو جنم دے گا اور سوال کتنا بھی معصوم ہو لیکن اپنے جوہر میں ہوتا خطرناک ہی ہے۔

عمران خان جب کہتے ہیں کہ میں وعدہ کرتا ہوں کہ پاکستان آیندہ کبھی کسی جنگ میں شرکت نہیں کرے گا تو کیا انھیں احساس ہے کہ اس ایک سیدھے سادے بے ضرر سے وعدے کو ریاض، دلی، تہران، کابل، بیجنگ اور واشنگٹن کس طرح اپنے اپنے مفاداتی عدسے لگا کے کتنی سنجیدگی یا غیرسنجیدگی سے دیکھ رہے ہوں گے؟

اگر اس برے میں سے اب تک کچھ اچھا ہوا ہے تو شاید یہ کہ پاکستان اب زمانے کی مار کھا کھا کے سیانا ہو گیا ہے۔ پہلے وہ کسی کام کی قیمت طے کرنے کے لیے سودے بازی نہیں کرتا تھا اور موٹے موٹے حساب پر مان جاتا تھا۔ اب وہ فی اسکوائر فٹ فی گھنٹہ چارج کرنا سیکھ گیا ہے۔ کوئی ملک بھلے سپرپاور ہی کیوں نہ ہو اپنی جنگ خود نہیں لڑنا چاہتا۔ بلکہ چاہتا ہے کہ کوئی پیسے لے کر اس کی طرف سے لڑ لے۔ پاکستان بھی وقت کے ساتھ ساتھ سپرپاورز کی یہ تکنیک سیکھ گیا ہے اور اس نے اپنے اہداف بھروسے کی تنظیموں کو ایک عرصے سے آؤٹ سورس کرنے شروع کر دیے ہیں۔ مگر پاکستان کو ابھی اس تکنیک میں مزید مہارت حاصل کرنا باقی ہے کہ کام نکالنے کے بعد کسی بھی پارٹی کو نیوٹرلائز یا ناکارہ کیسے بنایا جاتا ہے تاکہ وہ کسی اور سے مال پکڑ کے پاکستان پر ہی نہ پلٹ جائے۔ جیساکہ حالیہ برسوں میں کچھ تلخ تجربات ہوئے ہیں۔

خان صاحب کا یہ ارادہ اپنی جگہ نہایت مثبت ہے کہ پاکستان آیندہ کسی اور کی جنگ میں حصہ دار نہیں بنے گا۔ مگر اس وعدے پر قائم رہنا کسی بھی کمزور ملک کے لیے آسان نہیں۔

اگر آپ کی آمدنی کا مستقل اور قابلِ اعتماد ذریعہ نہ زراعت ہو، نہ صنعت، نہ بیرونِ ملک پاکستانیوں سے آنے والا زرِ مبادلہ۔ اگر آپ کا ٹیکس بیس مضبوط نہ ہو، اگر آپ کا خرچ آپ کی بچت سے دس ہاتھ آگے ہو، اگر آپ واجبات کی عدم وصولی، لیکیج، کرپشن اور مصلحت آمیز احتساب بازی کے عادی ہوں اور اس کے نتیجے میں ہر آن بڑھتے خسارے کو سینگوں سے پکڑنے کے بجائے چند دن اور ٹالنے یا آگے ہنکالنے کے لیے کشکول لے کر قرض، خیرات کی تلاش یا پھر قومی زیورات رہن رکھوانے کو بھی عار نہ سمجھیں تو پھر آپ کچھ بھی عزم ظاہر کرتے رہیں آپ کی ریاست اور اس کے ادارے برائے فروخت یا ترغیب و تحریص کے اسیر ہی رہیں گے۔ اس کے بعد ” نوکر کی تے نخرا کی۔ اپنی لڑائی کی تے پرائی کی؟ ‘‘۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس۔