کرو یا مرو

ویسے تو انسان جاتی ہی بہت عجیب ہے مگر انسانوں میں بھی اگر قسم بندی کی جائے تو ہم جنوبی ایشیائی سب سے الگ ہیں۔

سو روپے کے ادھار پر قتل کر دیں گے، خاندانی و دینی غیرت کے مارے سر اتار دیں گے، ہمیشہ اپنے کے بجائے دوسرے کو مشورہ دیں گے، بات بے بات ریاستی نااہلی کو اپنے انفرادی و اجتماعی افعال کا ذمہ دار ٹھہرائیں گے۔

لیکن جب آزمائش کا وقت آئے گا تو عقل کے ایٹم بم کو کام میں لانے کے بجائے جذبات کے بھالے، تاویل کی تلوار، کج بحثی کے پستول، اندھے عقیدے کے نیزے، تعصب کی منجنیق اور افواہ کی بندوق سے ہر آفت اور مرض کا مقابلہ کرنے کو افضل سمجھیں گے۔

مثلاً باقی دنیا بشمول عالمِ اسلام پولیو کا مقابلہ ویکسین اور آگہی سے کر رہی ہے اور سو فیصد کامیاب ہے۔ مگر ہم پولیو کو جہالت کی توپ سے اڑانے پر کمربستہ ہیں۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔

جسے عید کی نماز کے سوا باجماعت نماز کا کوئی تجربہ نہیں، وہ حرم شریف میں نماز نہ ہونے پر سعودیوں سے بھی زیادہ رنجیدہ ہے۔

جس نے ہمیشہ ذخیرہ اندوزی کو حلال جانا، وہ اللہ تعالی سے ڈرنے کی تلقین کر رہا ہے۔ جس نے جہاد پر اپنا کوئی بچہ نہیں بھیجا وہ بتا رہا ہے کہ وبا عام میں مرنا شہادت ہے۔

جس کی ہٹی سے کوئی ہڑ کا مربہ دو نمبری کے شہبے میں خریدنا پسند نہ کرے اس نے کورونا کا دیسی علاج سوشل میڈیا پر بیچنا شروع کر دیا ہے۔ جو خود کو ہارٹ سپیشلسٹ کہہ رہا ہے وہ وائرالوجی میں گھس کے مشورے دے رہا ہے کہ ہر آدھے گھنٹے بعد ہیئر ڈرائیر سے ناک کے بال گرم کریں تاکہ وائرس اندر نہ گھسے۔

وزیرِ اعظم کا کام ہے کہ وہ اس جنگ میں قوم کی قیادت کریں مگر انھیں بھی امید ہے کہ کورونا گرم موسم شروع ہوتے ہی کچھار میں گھس جائے گا۔

گورنر پنجاب نہ صرف خود قائل ہیں بلکہ دوسروں کو بھی قائل کر رہے ہیں کہ پانی پیتے رہیں تاکہ وائرس حلق سے پھسل کر معدے میں پہنچ جائے جہاں تیزابی عناصر اس کا کام تمام کرنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔

سرحد پار بھی ایسے ہی تماشے ہو رہے ہیں۔ گاؤ موتر سے کورونا کا اجتماعی علاج کرنے والے خود بیمار پڑ گئے ہیں مگر اس کے فضائل بیان کرنے سے باز نہیں آ رہے۔ ایک ارب پتی سادھو نے آیورویدک جڑی بوٹیوں سے علاج تجویز کیا ہے کیونکہ اس سادھو کی اپنی آیورویدک دوا ساز کمپنی ہے۔

مطلب یہ ہے کہ صابن سے ہاتھ نہیں دھونا، سینیٹائزر اور ماسک کا استعمال نہیں کرنا، اجتماعات یا بھیڑ میں جانے سے نہیں ہٹنا اور گھر میں آرام سے نہیں بیٹھنا۔ ان کے علاوہ تمام کام کرنے ہیں۔

خود کو بھی دھوکے میں رکھنا ہے اور لاکھوں لوگوں کو بھی ورغلاتے رہنا ہے۔ اور جب یہی لاکھوں لوگ خدانخواستہ مکھیوں کی طرح مرنے لگیں تو یہی دھوکے باز کہیں گے کہ انسان بے بس ہے، جو بھگوان یا اللہ کو منظور۔

مگر قصور ان سب کا بھی نہیں۔ ہماری اپنی نفسیات کون سی مثالی ہے۔ یہ تو خیر کورونا ہے۔

میں نے تو بچشمِ خود 2010 کے سیلابِ عظیم میں ملاحظہ کیا ہے کہ انتظامیہ گاؤں والوں کے ہاتھ جوڑتی رہی کہ گھروں کو خالی کر کے کشتیوں میں بیٹھ جاؤ تاکہ تمھیں کیمپوں تک پہنچا سکیں۔ اگلے 24 گھنٹوں میں پانی تمھارے گاؤں کو ڈبو دے گا۔ مگر اکثریت نے گھر چھوڑنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہمارے پیچھے گھروں کی حفاظت کون کرے گا۔

اور جب 24 گھنٹوں بعد پانی سات، آٹھ فٹ تک آگیا تو گاؤں چھتوں پر چڑھ کے حکومت کو کوس رہا تھا کہ اس نے ہمیں اکیلا چھوڑ دیا۔

یہ محاورہ بھی صرف برصغیر میں ہی بولا جاتا ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ کمیٹیاں بٹھانے اور بحث کرنے کا وقت گزر گیا۔ آپ جتنے لوگوں سے مشورے لیں گے اتنے ہی کنفیوژ ہوتے چلے جائیں گے۔ لہذا ’اب یا کبھی نہیں‘ کا مرحلہ آن پہنچا ہے۔

یہ ہمارا گیلی پولی ہے۔ جب گیلی پولی پر مغربی افواج نے چاروں طرف سے ہلا بول دیا تو کمال اتاترک نے اپنے سپاہیوں سے کہا ’میں تمھیں لڑنے کا نہیں، مرنے کا حکم دیتا ہوں۔‘ اور پھر گیلی پولی جیت لیا گیا۔

اس وقت ایک ہی ماڈل کام کا ہے اور وہ ہے چینی ماڈل: کرو یا مرو۔

تحریر: وسعت اللہ خان

بشکریہ بی بی سی اردو

غریب کرونا ، امیر کرونا

اپنے محلے کے جنرل سٹور سے گھر کا سودا خریدتے ہوئے ایک صاحب کو دیکھا جو منرل واٹر کی پیٹیاں ذخیرہ کر رہے تھے لیکن مصر تھے کہ پاکستانی نیسلے نہیں چاہیے، وہ جو دبئی والا آتا ہے وہ چاہیے۔

جب جنرل سٹور والے نے بتایا کہ وہ دستیاب نہیں ہے تو وہ بھناتے ہوئے گاڑی کی چابی گھماتے ہوئے کسی بہتر سٹور کی جانب چل دیے۔

میرے محلے کے سٹور والی گلی میں ہی کراچی کا مشہور عوامی ہوٹل کیفے کلفٹن ہے۔ یہ اتنا عوامی ہے کہ عید کے دن بھی بند نہیں ہوتا۔ کراچی کی انتہائی کم ایسی جگہیں ہیں جہاں مزدور اور بابو ایک ساتھ بیٹھ کر چائے پیتے ہیں۔

یہاں پر صبح مفت ناشتے کا بھی انتظام ہوتا ہے۔ کئی سالوں سے دیکھ رہا ہوں کہ ایک پراٹھے اور چائے کے کپ کے لیے لگی لائن لمبی ہوتی جا رہی ہے۔ لوگ اپنے چھ بچوں کو بھی لاتے ہیں۔ ناشتے کا انتظار کرتے لوگوں کے حلیے سے پتا چلتا ہے کہ وہ محنت کش ہیں، بھکاری نہیں۔

ان میں وردیاں پہنے پرائیویٹ سکیورٹی گارڈز ہوتے ہیں، کبھی رکشہ چلانے والے اور ایک آدھ دفعہ تو میں نے پولیس والے کو بھی ایک ہاتھ میں بندوق اور دوسرے ہاتھ سے چائے پراٹھا پکڑتے دیکھا ہے جو کیفے کلفٹن کے ملازم کسی مخیر اور درد مند شہری کی ایما پر بانٹ رہے ہوتے ہیں۔

سندھ حکومت نے فیصلہ کیا اور اچھا فیصلہ کیا کہ سوائے سودا سلف کی دکانوں کے سب دھندے بند کیے جائیں تو پہلی دفعہ کیفے کلفٹن پر شٹر پڑے دیکھے اور ساتھ ہی یہ احساس ہوا کہ شہر میں ایک امیر کورونا ہے جو دبئی کے منرل واٹر کی تلاش میں ہے اور شہر میں ایک غریب کورونا ہے جو صبح ملنے والے مفت چائے پراٹھے سے محروم ہوگیا ہے۔

کراچی والے اپنے آپ کو بہت ہمت والے (resilient) سمجھتے ہیں۔ میں کہتا رہا ہوں کہ ہم ڈھیٹ لوگ ہیں۔ الطاف حسین کی سقے شاہی ہو، رینجرز کے پے در پے آپریشن ہوں، ملک کے دوسری آفت زدہ علاقوں سے آنے والے پناہ گزینوں کا سیلاب ہو یا تابڑ توڑ ہونے والے دہشت گرد حملے، ہم دو دن بعد ہی کپڑے جھاڑ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور نکڑ والے پان کے کھوکھے پر کھڑے ہو کر پان لگواتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ ’اور سناؤ، کیا حال ہے؟‘ صاحبِ حیثیت تو گھروں میں بند ہو کر اپنا منرل واٹر پیتے رہیں گے، لیکن مزدور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر رزق کی تلاش میں نکلنے پر مجبور ہوگا

ہم اس کو ڈھٹائی کہہ لیں، بہادری کہہ لیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر شہر میں سکت ہی نہیں ہے کہ وہ کسی خوف اور صدمے کی وجہ سے گھر میں بند ہو کر بیٹھ جائیں۔

شہر کی آدھی سے زیادہ آبادی دیہاڑی دار ہے۔ روز کنواں کھودتے ہیں، روز پانی پیتے ہیں۔ گھر میں چار پانچ دن سے زیادہ کا راشن نہیں ہوتا۔ جب الطاف حسین کے دبدبے میں پورا کراچی آدھے گھنٹے کے اندر اندر بند ہو جاتا تھا تو 48 گھنٹے کے بعد لوگ ’بھائی گیا بھاڑ میں‘ کہتے ہوئے آہستہ آہستہ اپنے دھندوں کے لیے نکل پڑتے تھے۔

لیکن اب وہ ان دھندوں کے لیے جائیں بھی تو کہاں؟ ہر غریب امیر سکول کے باہر ایک بھنی ہوئی مکئی بیچنے والا یا ٹافیوں کی چھابڑی والا۔ سکول بند تو دھندا بند۔

ہر چھوٹے بازار کے کونے پر ایک موچی جو بابوؤں کے جوتے پالش کر کے اور مزدوروں کی چپلیں گانٹھ کر کے حلال رزق بنانے والا، بازار بند تو اس کا روزگار بھی بند۔

ساحلِ سمندر پر تھرماس سے قہوہ بیچنے والے، کرارے پاپڑ والے، اونٹوں اور گھوڑوں پر سواری کرانے والے۔ ساحلِ سمندر بند تو گھر کا چولہا بھی بند۔ ہر چھوٹے بازار کے کونے پر ایک موچی جو بابوؤں کے جوتے پالش کر کے اور مزدوروں کی چپلیں گانٹھ کر کے حلال رزق بنانے والا، بازار بند تو اس کا روزگار بھی بند

سڑک کے کنارے ہتھوڑی، چھینی، ڈرل مشین، پینٹ برش لے کر آجر کا انتظار کرتے مزدور، وہ کھائیں یا کورونا سے بچیں؟

ٹریفک لائٹ پر غبارے، کھلونے بیچتے بچے اور 10 روپے کے عوض آپ کو حاجی صاحب کہنے والی بوڑھی عورت، شہر کے لاک ڈاؤن کے بعد یہ سب لوگ کہاں جائیں گے؟

سندھ حکومت کے مخالف بھی اور وہ لوگ بھی جو بھٹو کے نام کے ساتھ گالی دینا اپنا سیاسی فرض سمجھتے ہیں اس بات کے معترف ہیں کہ سندھ حکومت نے باقی صوبوں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی دکھائی ہے۔ سکول، کالج، بازار بند کر کے لوگوں کو اس وبا سے بچنے کے لیے تیار کیا ہے۔

اب کیا ہی اچھا ہو کہ شہر میں پھیلے رفاہی اداروں کے جال جیسے ایدھی، سیلانی، امن فاؤنڈیشن اور اس جیسے بہت سے دوسرے اداروں کے ساتھ میں کر ان محنت کشوں کے لیے راشن اور دوسری ضروریاتِ زندگی کا بندوبست کیا جائے ورنہ صاحبِ حیثیت تو گھروں میں بند ہو کر اپنا منرل واٹر پیتے رہیں گے، لیکن مزدور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر رزق کی تلاش میں نکلنے پر مجبور ہوگا۔

تحریر: محمد حنیف

بشکریہ بی بی سی اردو

فرض کریں آپ بنگالی ہیں۔۔۔

فرض کریں آپ کراچی میں رہنے والی چوتھی نسل کے بنگالی ہیں۔ زیادہ تر امکان ہے کہ آپ غریب ہیں لیکن ہر غریب کی طرح آپ کو بھی بچے پڑھانے کا بہت شوق ہے۔

فرض کریں کہ آپ کچھ خوش قسمت بھی ہیں کیونکہ نہ صرف آپ کی بچی کو پڑھنے کا بہت شوق ہے بلکہ اسے ’سٹیزن فاؤنڈیشن‘ نامی ادارے کے سکول میں مفت تعلیم بھی مل رہی ہے۔

بچی ہر کلاس میں ٹاپ کر کے آگے بڑھتی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر، پائلٹ یا مارک زکربرگ بننے کے خواب دیکھتی ہے۔ آپ بھی اسے خواب دیکھنے سے نہیں روک سکتے اور بچی یہ خواب دیکھتے دیکھتے نویں جماعت میں پہنچ جاتی ہے اور وہاں اسے بتایا جاتا ہے کہ وہ دسویں جماعت کا بورڈ کا امتحان نہیں دے سکتی کیونکہ آپ کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے۔

آپ کے ماں، باپ بھی یہیں پیدا ہوئے تھے، ان کے ماں باپ بھی یہیں پلے بڑھے تھے۔ آپ کے والد کے پاس شناختی کارڈ بھی تھا۔ آپ کے پاس بھی اپنا برتھ سرٹیفیکیٹ، بچی کا برتھ سرٹیفیکیٹ موجود ہے لیکن نادرا بنی، کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ آئے تو حکومت نے اپنے ہی بنائے ہوئے شہریت ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آپ کو سرکاری ریکارڈ سے غائب کر دیا۔

آپ کی بچی کے خواب نویں جماعت کے ساتھ دم توڑ جائیں گے وہ کبھی دسویں جماعت کا امتحان نہیں دے سکے گی۔

فرض کریں آپ ایک بنگالی نوجوان ہیں۔ آپ کو کچھ کرنا نہیں آتا، بس گاڑی چلانی سیکھ لی تھی۔ کراچی ظالم شہر ہے مگر اتنا ظالم بھی نہیں۔ سرکاری ٹرانسپورٹ نہیں ہے تو پرائیوٹ بسوں پر چلتا ہے۔ ملک کے دوسرے حصوں سے بُرا ڈرائیور بھی آتا ہے تو 20 ہزار کی نوکری پکڑ لیتا ہے۔ بنگالی بچے اپنے علاقوں میں واقع عارضی سکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں

آپ تو یہیں کی جم پل ہیں، شہر کے راستے بھی جانتے ہیں لیکن ڈرائیور کی نوکری کے لیے ڈرائیونگ لائسنس چاہیے اور اس کے لیے کیا چاہیے؟ جی ہاں شناختی کارڈ۔ آپ کے والد کے پاس تھا، آپ کے پاس نہیں ہے۔ کراچی میں ڈرائیور بننے کا خواب دیکھنا بند کر دیں۔

فرض کریں آپ چار بچوں کی ماں ہیں اور ان کے سر پر چھت رکھنے کے لیے، ان کا پیٹ پالنے کے لیے کسی سیٹھ کے گھر میں جھاڑو لگاتی ہیں۔ سیٹھ مہربان ہے، ایک وقت کا کھانا دیتا ہے، صرف 10 گھنٹے کام لیتا ہے اور اتوار کی چھٹی بھی دیتا ہے لیکن تنخواہ کم دیتا ہے۔

آپ نے محلے والوں سے سنا ہے کہ حکومت نے بےنظیر کے نام پر ایک پروگرام رکھا ہے جس میں آپ جیسی محنت کش خواتین کو ہر مہینے چند ہزار روپے ملتے ہیں۔ آپ کو پتا ہے کہ یہ افواہ نہیں ہے۔ آپ کی جاننے والیوں کو، سہیلیوں کو یہ پیسے مہینے کے مہینے ملتے ہیں۔ وہ چند ہزار روپے جن سے بچوں کے جوتے خریدے جا سکتے ہیں، مہینے میں ایک بار چکن کھایا جا سکتا ہے۔

وہ چند ہزار روپے آپ کو نہیں مل سکتے کیونکہ آپ بنگالی ہیں، آپ کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے۔ آپ کے والد کے پاس تھا۔ آپ کو اندازہ ہے کہ اس ملک کے ساتھ ایک سانحہ ہوا تھا، آپ کی پیدائش سے پہلے بنگالیوں نے لڑ کے اپنا ملک بنا لیا تھا، بنگلہ دیش۔ لیکن جب وہ ملک بنا تو آپ کا باپ پاکستانی تھا اور یہاں کراچی میں کیکڑے پکڑتا تھا۔

فرض کریں کہ آپ بنگالی ہیں اور کراچی میں رہتے ہیں اور کوئی آپ سے پوچھے کہ کراچی میں کتنے بنگالی رہتے ہیں تو آپ کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ 20 لاکھ یا 30 لاکھ۔ آبادی کی گنتی کرنے والے بھی آپ کو بھول چکے ہیں۔

ان کو یہ بھی یاد نہیں کہ آپ وہ بنگلہ دیشی نہیں ہیں جو 1980 کی دہائی میں پورا انڈیا پیدل چل کر روزی روٹی کی تلاش میں کراچی پہنچے تھے۔ اب وہ بنگلہ دیش اتنی ترقی کر چکا ہے کہ ہمارا سیٹھ رہتا تو کراچی میں ہے لیکن فیکٹری ڈھاکہ کے مضافات میں ٹیکس فری زون میں لگاتا ہے۔ کیا میں پاکستانی نہیں ہوں؟

فرض کریں آپ کراچی میں رہنے والے بنگالی ہیں تو آپ نے زندگی میں صرف ایک دفعہ خواب دیکھا تھا جب عمران خان کراچی آیا تھا اور جلسے میں کھڑے ہو کر کہا تھا کہ آپ لوگوں کو شہریت ملے گی۔ ویسے تو پورے پاکستان کو عمران خان سے عشق ہے لیکن اس تقریر کے بعد جتنا عشق بنگالیوں کو عمران خان سے ہوا، جتنی دعائیں اس کے لیے بنگالیوں کے دلوں سے نکلیں، وہ عمران خان کو پہلے کبھی نہ ملی ہوں گی۔

ابھی بھی کراچی کے بنگالی عمران خان سے امید لگا کر بیٹھے ہیں۔ ساتھ خوف بھی ہے کہ ان کے وزیر اور مشیر وہ پرانا مشورہ نہ دے دیں کہ یہ کراچی کے بنگالی کیا کر لیں گے، آگے سمندر ہے۔

کاش عمران خان ایک دفعہ مچھر کالونی آئے اور دیکھے کہ آگے سمندر ہے والی منطق کتنی لایعنی ہے۔ ہم تو پہلے ہی سمندر پر کچرا ڈال کر اس پر گھر بنا کر بیٹھے ہیں۔

فرض کریں آپ بنگالی ہیں۔ آپ کی نویں جماعت تک ٹاپ کرنے والی بیٹی، ڈاکٹر، پائلٹ، مارک زکربرگ بننے کا خواب دیکھنے والی بیٹی اب گھر میں بیٹھی ہے اور اس کی شادی ہونی ہے۔ بیٹی سگھڑ ہے، دسویں جماعت میں ٹاپ نہ کرنے کا غم پتا نہیں بھول سکی ہے یا نہیں لیکن اس کا ذکر نہیں کرتی۔ محلے کے مدرسے میں یا سکول جا کر بچوں کو پڑھا بھی آتی ہے۔

اب اس کا رشتہ دیکھنے آئیں گے تو بیٹی چائے بھی پیش کرے گی اور تکلفات کے بعد رشتہ لانے والے پوچھیں گے، بیٹی کا شناختی کارڈ ہے؟

تحریر: محمد حنیف

بشکریہ بی بی سی اردو

وائرس کا مقابلہ مسخرہ پن سے۔۔۔

آج کل سب سے زیادہ مزے میں وہ ہے جس کی یا تو گرد و پیش کے حالات تک رسائی نہیں یا ہے بھی تو اسے اپنے محلے یا شہر یا صوبے یا زیادہ سے زیادہ ملک سے باہر کے حالات جاننے میں کوئی دلچسپی نہیں۔

اس وقت انٹرنیٹ آگہی سے زیادہ فروغِ جہل کا آلہ بنا ہوا ہے۔ کورونا کے بارے میں ہر سنی سنائی بات یا پوسٹ بلا تصدیق اور پوری طرح پڑھے بغیر دکھی انسانیت کے جذبے سے سرشار ٹویٹچی، فیس بکیے، انسٹا گرامیے، یو ٹیوبیے تھوک کے حساب سے فارورڈ کر رہے ہیں۔

کاروباری حضرات کورونا کو ایک سنہری تجارتی موقع سمجھ کر بے دردی سے استعمال کر رہے ہیں۔

مثلاً احتیاطی ماسک عوام الناس کو نہیں بلکہ چھینک نزلے زکام اور کھانسی والے لوگوں کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے لیکن میڈیکل سٹور والے ہر گاہک کو بتا رہے ہیں کہ بڑی مشکل سے سو ماسک آج لایا ہوں، شام تک ختم ہو جائیں گے، پھر جانے کب سپلائی آئے۔

مطلب یہ ہے کہ تمہیں ضرورت ہے یا نہیں مگر ماسک خرید لو۔ نتیجہ یہ ہے کہ گلی میں آدھے لوگ ماسک پہن کر گھوم رہے ہیں اور باقی آدھے انھیں دیکھ رہے ہیں۔

احتیاطی ماسک کے ساتھ بھی وہی تماشا ہو رہا ہے جو ایوب دور میں خاندانی منصوبہ بندی محکمے کی جانب سے مفت تقسیم کیے جانے والے شفاف احتیاطی غباروں کا ہوا تھا۔ بڑے انھیں استعمال کرنے کے موڈ میں نہیں تھے اور بچے ان میں ہوا بھر کے گلی گلی اڑاتے پھر رہے تھے۔

نیز ان دنوں جس کا نشہ نہیں بک رہا اس نے افواہ پھیلا دی کہ کوکین اور الکوحل کورونا سے بچاتی ہے۔ جس کا ہومیوپیتھی کا کاروبار مندا ہے وہ مشورے دے رہا ہے کہ میاں آرسینیکم تھرٹی صبح شام چاب لو کورونا قریب بھی نہیں پھٹکے گا۔

پیروں فقیروں نے دافع بلیات منتر، دم، جھاڑ پھونک اور کالے بکرے کی قربانی کی فہرست میں محبوب آپ کے قدموں میں اور مردانہ کمزوری سے چوبیس گھنٹے میں نجات کے ساتھ ساتھ کورونا سے تحفظ کے عملیات کو بھی شامل کر لیا ہے( ان سب کو چارٹر فلائٹ سے چین، ایران اور اٹلی روانہ کر دینا چاہیے۔)

عام لوگ تو رہے ایک طرف، خواندہ اور پروفیشنلز کو بھی یقین نہیں کہ کورونا واقعی کوئی سنجیدہ مسئلہ ہے۔

کل شام ہی ایک شادی کی تقریب میں ایک ڈاکٹر صاحب نے سرگوشی کی ’بھائی صاحب آپ تو میڈیا کے آدمی ہیں ۔اندر کی بات کیا ہے ۔ کورونا کو اتنا خطرناک کیوں بتایا جا رہا ہے۔ کیا واقعی یہ خود بخود پھیلا ہے یا جیسا کہ چین کہہ رہا ہے کہ امریکہ نے پھیلایا ہے؟

اسی تقریب میں ایک ایکسپورٹر نے مجھے بتایا کہ دراصل یہ کورونا بڑے ملکوں کی تجارتی رقابت کا ہتھیار اور ایک دوسرے کی مارکیٹ خراب کرنے کی جنگ ہے۔ ہم لوگ خواہ مخواہ گھبرا رہے ہیں اور عالمی پروپیگنڈے کا شکار ہو رہے ہیں اور پھر انھوں نے جیب سے سینٹائزر نکال کے ہاتھ پر ملا اور قورمے کی جانب لپکے۔

چین اور جنوبی کوریا نے مزید مریضوں کا انتظار کیے بغیر بڑے پیمانے پر عوامی سطح پر ٹیسنگ اور مشتبہ مریضوں کو فوری طور پر الگ تھلگ کرنے اور لاک ڈاؤن جیسے جارحانہ طریقوں کے زریعے کورونا کے پھیلاؤ کو کنٹرول کرنے میں کسی حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔

پاکستان جیسے ممالک کا صحت ڈھانچہ ایک وقت میں دس بیس ہزار مریضوں سے بھی نمٹنے کا اہل ہے کہ نہیں؟ اس بارے میں محض اندازے ہی لگائے جا سکتے ہیں۔

ان حالات میں کورونا جیسی وباؤں کا راستہ روکنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ لونڈیہار پن کے رویے کو کچھ عرصے کے لیے ترک کر کے تھوڑی سی سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے اسے اجتماعی قومی زمہ داری محسوس کرتے ہوئے انفرادی سطح ہر ممکن احتیاط نبھائی جائے۔

مگر ہم سب چونکہ مزاجاً ہر کام کی ذمہ داری ریاست پر لادنے اور ریاستی ناکامی کی صورت میں اوپر والے پر بوجھ بننے کے عادی ہیں لہذا بچ گئے تب بھی اور نہ بچے تب بھی ہمارا ذاتی قصور ممکن ہی نہیں۔

باقی دنیا میں کورونا شہہ سرخی ہے۔ ہمارے ہاں شہباز شریف لندن سے کب آئیں گے؟ میر شکیل کی گرفتاری آزادیِ صحافت پر حملہ ہے کہ کرپشن کا کیس؟ ایم این اے علی وزیر کو نااہل قرار دینے کے لیے ہائی کورٹ میں پیٹیشن کس کے کہنے پر دائر؟ اور پھر ان سب ’اہمیات‘ سے جگہ بچ جائے تو یہ بریکنگ نیوز کہ وفاق اور صوبے کورونا سے نمٹنے کے لیے آخر ایک پیج پر کیوں نہیں؟ ڈھنچک ڈھنچک ڈھنچک۔۔۔

مجھے پہلی بار وہ قصہ سچ لگ رہا ہے کہ جنوری 1258 میں بغداد کے محاصرے کے بعد جب منگول ایلچی ہتھیار ڈالنے کا الٹی میٹم لے کر خلیفہ المستعصم کے دربار میں پہنچا تو وہاں علما و امرا کے مابین دھواں دار بحث جاری تھی کہ سوئی کے ناکے سے بیک وقت کتنے اونٹ گزر سکتے ہیں ؟

وسعت اللہ خان

بشکریہ بی بی سی اردو